حضرت ایزید بسطامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ زندگی بھر کسی شخص نے بھی کسی معاملے میں مجھے اس طرح شکست نہیں دی، جس طرح بلخ کے ایک نوجوان نے دی۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں اس سے ہار گیا۔ شاگردوں نے پوچھا کہ حضرت اصل واقعہ کیا ہے؟ فرمایا کہ ایک دفعہ بلخ کا ایک نوجوان حج کو جاتے ہوئے میرے پاس حاضر ہوا جو انتہائی متوکل اور صابر نوجوان تھا۔ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ زہد کی حقیقت آپ کے نزدیک کیا ہے؟ میں نے کہا کہ جب ہمیں ملے تو کھالیں اور جب نہ ملے تو صبر کریں۔ اس نے کہا: ایسے تو ہمارے ہاں بلخ کے کتے بھی کرتے ہیں، جب ملے کھا لیتے ہیں اور جب نہ ملے تو صبر کر لیتے ہیں۔ یہ تو کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ میں نے پوچھا: تو پھر تمہارے ہاں زہد کی حقیقت کیا ہے؟ وہ کہنے لگا: جب ہمیں نہ ملے تو پھر بھی حمد و شکر کریں اور جب ملے تو دوسرں پر ایثار کر دیں، یہ ہے زہد کی حقیقت۔
حضرت امام شافعی علیہ الرحمۃ کا فرمان ہے کہ تین کام سب سے مشکل ہیں: تنگدستی کے باوجود سخاوت کرنا، تنہائی اور خلوت میں بھی تقویٰ اختیار کرکے گناہ سے بچنا اور ایسے شخص کے سامنے حق بات کہنا جس سے امیدیں بھی وابستہ ہوں اور اس سے خوف بھی لاحق ہو۔ آپؒ ہمیشہ اپنے ساتھ لاٹھی رکھتے تھے۔ کسی نے پوچھاکہ حضرت! آپ اتنے بوڑھے تو نہیں ہیں کہ لاٹھی کے سہارے کی ضرورت پڑے؟ فرمایا کہ میں (آخرت کا) مسافر ہوں اور مسافر ہمیشہ اپنے ساتھ لاٹھی رکھتا ہے۔
حضرت امام شافعی علیہ الرحمۃ کا فرمان ہے کہ دنیا ایک پھسلانے والا کیچڑ اور ذلت کا گھر ہے، اس کی آبادی ایک دن ویران ہو جائے گی اور اس کے باسی قبر کے مسافر ہیں، اس کی شان و شوکت محض سراب کے سوا کچھ نہیں، اس کی مالداری چند روز کا دھوکہ ہے۔ اس لیے ہوشیار انسان وہ ہے، جو اس سے دل نہ لگائے، بلکہ اپنے رب کی طرف رجوع کرے اور آخرت کے اپنے دائمی گھر کو بنانے اور سنوارنے میں لگ جائے۔ (اقوال الامام الشافعیؒ)
٭٭٭٭٭