یہی میرا مقتل ہے

ہابیل کی مخلصانہ نصیحت وہدایت کا الٹا اثر ہوا اور قابیل نے طیش میں آکر اپنے حق پرست بھائی ہابیل کو قتل کر ڈالا۔ اس وقت ہابیل کی عمر بیس سال تھی۔ روئے زمین پر ابھی تک قتل انسانی کا حادثہ نہیں ہوا تھا اور غالباً یہ دنیا میں پہلی موت بھی تھی۔ ہابیل مظلوم کی لاش زمین پر پڑی رہی۔ نسل انسانی کا یہ پہلا ناحق خون تھا۔ قابیل کا جنون انتقام جب سرد پڑا تب یہ فکر لاحق ہوئی کہ اپنے اس ’’عمل بد‘‘ کو کس طرح چھپایا جائے؟ اور لاش کا کیا انتظام کا جائے؟
اب تک دفن کرنے کا طریقہ جاری نہیں ہوا تھا ۔ قابیل اپنے مظلوم بھائی ہابیل کی لاش کو اپنی پشت پر لے پھرتا رہا۔ کوئی تدبیر سمجھ میں نہ آئی، جب تھک گیا تو حق تعالیٰ نے دستگیری فرمائی۔ ایک کوے کو دیکھا کہ وہ زمین کرید کرید کر گڑھا بنا کر ایک مردہ کوے کو اس میں چھپا رہا ہے۔ تب قابیل کو احساس ہوا کہ مجھے بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ چنانچہ زمین کھود کر اس اپنے بھائی کی لاش کو چھپادیا۔
اس عمل کے بعد اپنی کم عقلی پر افسوس کرنے لگا کہ ہائے افسوس میں اس کوے سے بھی گیا گزرا ہوں، جو اپنے جرم کو چھپانے کی بھی اہلیت رکھتا۔ افسوس میں ایک حقیر جانور سے بھی کمتر ہوں اور مجھ میں اتنی بھی عقل نہیں۔ اس کے بعد اس کی عقل جاتی رہی، بدن سیاہ پڑگیا اور اسی حالت میں وہ فوت ہوگیا۔
مقتل ہابیل:
دمشق (ملک شام) کے شمال میں جبل قاسیون پر ایک زیارت گاہ عام چلی آرہی ہے، جو ’’مقتل ہابیل‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ مورخ ابن عساکرؒ نے احمد بن کثیرؒ کے تذکرے میں ان کا ایک خواب نقل کیا ہے کہ انہوں نے رسول اکرمؐ کو خواب میںدیکھا۔ آپؐ کے ساتھ ہابیل بھی تھے۔ ہابیل نے قسم کھا کر کہا کہ یہی میرا مقتل ہے۔ اس پر رسول اکرمؐ نے خواب میں اس کی بات کی تصدیق فرمائی۔ حقیقت حال حق تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
حافظ ابن کثیرؒ نے اپنی کتاب ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں اس واقعہ کو نقل کر کے یہ کلام کیا ہے اگر چہ خواب سچا ہے تاہم اس سے کوئی شرعی یا تاریخی حکم ثابت نہیں ہوتا۔
دفن کا پاکیزہ طریقہ:
ہابیل چونکہ خدا کا مقبول بندہ تھا، اس لیے اس کے بدن کی تعظیم و تکریم کے لیے دفن کا پاکیزہ طریقہ رائج کیا گیا، جو قیامت تک کے لئے نسل انسانی کی سنت قرار پائی اور اس سے بہتر کوئی اور طریقہ آج تک وجود میں نہ آیا۔ دراصل نیک لوگوں کی حیات و وفات دونوں ہی نرالی ہوتی ہیں۔
ہر قتل کے گناہ میں شریک:
چونکہ جو شخص کام کی بنیاد ڈالتا ہے، اس پر جتنے بھی لوگ بعد میں عمل کریں گے، ان عمل کرنے والوں کے ساتھ وہ شخص بھی شریک ہوتا ہے۔ اگر کسی اچھے کام کی بنیاد ڈالی تو بعد میں جتنے بھی لوگ اس پر عمل کرتے رہیں گے، بنیاد ڈالنے والے کو بھی اجر کا ایک حصہ ملتا رہے گا۔ عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اسی طرح جس نے کسی گناہ کے کام کی بنیاد ڈالی تو اس پر جتنے بھی لوگ عمل کریں گے اس شخص کو بھی اس کا ایک حصہ ملتا رہے گا۔ چنانچہ قابیل نے قتل انسانی کی بنیاد ڈالی، اس لئے حدیث شریف میں ہے کہ جتنے بھی لوگ قتل کئے جائیں گے، اس میں قابیل کو بھی حصہ ملتا رہے گا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment