مورس نے کہا کہ مجھے ایک بات سے اور پریشانی ہے کہ مسلمانوں میں عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ ان کے سارے مسئلے خدا نے ہی حل کرنے ہیں، اس لیے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے قدرت کے کسی معجزے کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور ماضی کے واقعات سنا سنا کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ فلاں موقع پر خدا نے اس طرح ان کی مدد کی تھی۔ اسی طرح بہت سے مسلمان اس انتظار میں ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آئیں گے اور دجال ظاہر ہوگا تو اس وقت سب کچھ ہوگا۔ مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ انہیں اپنی حالت بہتر بنانے کے لیے خود کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا، اس طرح انتظار میں بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ انہیں اپنے حالات درست کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ مورس نے کہا کہ نومسلم کو اسلامی احکام و فرائض کے ساتھ ساتھ بعض لوگ اپنے اپنے علاقائی کلچر کا بھی پابند بنانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ لباس بھی ان جیسا پہنے اور وضع قطع بھی انہی کی اختیار کرے۔ اس پر اس قدر سختی کی جاتی ہے کہ وہ پریشان ہو جاتا ہے، حالانکہ جو باتیں اسلام میں ضروری نہیں ہیں، ان کے بارے میں نومسلموں پر اس قدر سختی نہیں ہونی چاہیے اور انہیں سادہ طریقے سے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ کیا جانا چاہیے۔
مورس نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ مسلمانوں کی اس عمومی حالت سے پریشان ہو کر یونیورسٹی کی مسجد میں گیا کہ وہاں قدرے پڑھا لکھا ماحول ہوگا، مگر وہاں بھی صورتحال ویسی ہی تھی۔ اس نے تبلیغی جماعت کے ساتھ کئی بار وقت لگایا، جس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ اسے دین کی معلومات حاصل ہوں گی اور علم میں اضافہ ہوگا، مگر وہاں بھی اسے تبلیغی نصاب اور کچن کی صفائی کے کاموں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اس نے قرآن کریم کا سالہا سال تک مطالعہ کیا تھا، اس کے حوالے سے جب وہ کوئی سوال کرتا تو اسے جواب ملتا کہ تم قرآن کریم کو کیا جانتے ہو، تمہارے پاس کیا علم ہے؟ اس سے اس کی مایوسی میں اضافہ ہوا۔ ایک مسجد میں رمضان المبارک کے دوران دیکھا کہ کھانے پینے کا سامان بہت ضائع ہو رہا ہے اور کھانے کا انداز بھی مجھے اچھا نہ لگا۔ اس قسم کے مناظر دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوا کہ جس اسلام کی میں تلاش میں تھا، یہ وہ اسلام نہیں ہے، اس لیے میں اب مسلمانوں کی آبادی سے الگ تھلگ یہاں زندگی بسر کر رہا ہوں۔
میں نے مورس سے سوال کیا کہ اسلام کی دعوت دینے والوں کو نومسلموں کے ساتھ کیا طرزعمل اختیار کرنا چاہیے، اس نے کہا کہ انہیں مسائل اور اختلافات میں نہ الجھائیں اور دین کی بنیادی باتوں کی سادہ انداز میں تعلیم دیں۔ انسانیت کے حوالے سے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کی تلقین کریں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے ساتھ پیش آنے والے مسائل اور مشکلات معلوم کریں اور
انہیں حل کرنے کے لیے ان سے تعاون کریں۔ انہیں قرآن کریم کے حوالے سے بات سمجھانے کی کوشش کریں اور احادیث کے اختلافات سے انہیں دور رکھیں، اس سے ان کے ذہنوں میں کنفیوژن پیدا ہوتا ہے۔ دین کے مسائل سمجھانے کے لیے ’’کامن سینس‘‘ کا زیادہ استعمال کریں۔ مثلاً یہ بات سمجھانے کے لیے کہ مونچھیں تراشنی چاہئیں، انہیں فرض یا واجب کہہ کر بات نہ کریں بلکہ انہیں اس کے فائدے بتائیں کہ مونچھ تراشنے سے انہیں یہ فائدہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عام لوگوں کی خدمت کا ایسا نظام بنائیں جس سے لوگ مذہب کی کسی تفریق کے بغیر فائدہ اٹھا سکیں تاکہ نومسلموں کو ضرورت پڑنے پر الگ سے چیریٹی کا اہتمام نہ پڑے۔ اسلام کے بارے میں ان کے مطالعہ اور اسٹڈی کا احترام کریں اور انہیں اس بات کا بار بار طعنہ نہ دیں کہ تم کیا جانتے ہو، تمہیں کیا آتا ہے اور تمہارے پاس کیا علم ہے؟
نومسلموں کو قرآن کریم کے بتائے ہوئے اچھے کاموں کو بجا لانے کی تلقین کریں، دیانت و امانت کی اہمیت سے آگاہ کریں او رخیر کے کاموں کی طرف رغبت دلائیں۔
٭٭٭٭٭