سرفروش

عباس ثاقب
وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر شایدکسی سوچ میں گم ہوگیا۔ پھر اس نے بات آگے بڑھائی۔ ’’سچی بات یہ ہے کہ میں اپنی غلاظت بھری زندگی سے دامن چھڑانا چاہتا تھا۔ لیکن جب مٹھو سنگھ نے مجھے اپنے زیر انتظام چلنے والے اناتھ آشرم اور لاوارث عورتوں کی پناہ گاہ کے طور پر کام کرنے والے ادارے میں ملازمت دی تو مجھے کچھ ہی دنوں میں پتا چل گیا کہ مٹھو سنگھ نے اپنا وہی پرانا دھندا نئے انداز میں جاری رکھا ہوا ہے۔ پہلے وہ صرف مسلمان عورتوں کا بیوپار کرتا تھا، اب اس کے دھندے میں مذہب کا فرق ختم ہو گیا ہے۔ میں نے وہاں جوکچھ دیکھا، اسے بیان کرنے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے۔ اسی لیے میں طبیعت خرابی کا بہانا کر کے، وہاں کی نوکر ی چھوڑ کر بومبے آگیا تھا‘‘۔
قدرے توقف کے بعد میں نے بظاہر بے تاثر لہجے میں پوچھا۔ ’’بٹوارے کے زمانے میں تو مٹھو سنگھ کوئی قانون لاگو نہ ہونے کی وجہ سے بچ نکلا ہوگا۔ کیا اب بھی کوئی اس پر ہاتھ ڈالنے والا نہیں ہے؟‘‘۔
گربچن نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’اس پر ہاتھ ڈالنے کی طاقت رکھنے والے خود اس کے دست و بازوہیں…۔ میں خود بھی کئی مسلمان عورتوں کے ساتھ زیادتی کر کے بھول چکا تھا۔ لیکن مٹھو سنگھ کے اس منحوس آشرم میں تین مسلمان بہنوں کو درپیش صورتِ حال دیکھ کر میرا دل دہل گیا تھا۔ وہ بچیاں بٹوارے کے وقت اس خبیث مٹھو سنگھ نے خریدی تھیں۔ اس وقت ان کی عمریں چار سے چھ سال کی رہی ہوں گی۔ اسی کی قید میں رہتے ہوئے وہ بڑی ہوئیں اور اب شاید تینوں یا کم ازکم دو سیانی ہوچکی ہوں گی‘‘۔
میں نے اپنی ابتر دلی حالت چھپاتے ہوئے پوچھا۔ ’’ہو سکتا ہے مٹھو سنگھ اب تک انہیں فروخت بھی کرچکا ہو، یا خود ہوس کا نشانہ بناچکا ہو!‘‘۔
گربچن سنگھ نے کہا۔ ’’یہ تو واہگورو ہی جانتا ہے۔ مگر وہ بچیاں کشمیری نسل کی ہونے کی وجہ سے غیر معمولی حد تک خوب صورت ہیں اور مٹھو سنگھ انہیں منہ مانگی قیمت پر فروخت کرنے کی امید رکھتا تھا۔ ہو سکتا ہے وہ ابھی اپنی پسند کی قیمت لگانے والے خریدار نہ ڈھونڈ سکا ہو‘‘۔
میں نے بظاہر سرسری لہجے میں پوچھا۔ ’’مٹھو سنگھ اپنے قبضے میں موجود لڑکیوں کے لیے گاہک کیسے ڈھونڈتا ہے؟‘‘۔
گربچن نے کہا۔ ’’اس کے بہت سے ایجنٹ ہیں، جو گاہکوں کو گھیر کر لاتے ہیں۔ ہر فروخت پر انہیں بھاری کمیشن ملتا ہے‘‘۔
میں نے مصنوعی اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا۔ ’’کیا تم کسی ایسے ایجنٹ کو جانتے ہو، جس سے ان لڑکیوں میں سے کسی کی خریداری کے لیے رابطہ کیا جا سکے؟‘‘۔
اس نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا۔ ’’کیا تم خریدنا چاہتے ہو ان میں سے کسی کو؟ پتا ہے دسیوں ہزار روپوں کا مطالبہ ہوگا‘‘۔
میں نے بے ساختہ اترتی تلخی چھپاتے ہوئے کہا۔ ’’وہ تو بعد کی بات ہے۔ آپ ایسے کسی دلال کو جانتے ہیں تو اس کا نام اور رابطے کا طریقہ بتائیں‘‘۔
اس نے کچھ سوچ کر کہا۔ ’’میرا خیال ہے مانک لال ابھی تک پٹیالا میں اپنے پہلے والے ٹھکانے پر ہی مل جائے گا۔ پر وہ بہت لالچی بندہ ہے۔ تمہاری جیب کاٹنے کا کوئی موقع ضائع جانے نہیں دے گا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’آپ اس کی فکر نہ کریں۔ میں نمٹ لوں گا‘‘۔
گربچن نے اسلم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’یار تمہارا یہ جوان دوست تو کچھ کھسکا ہوا لگ رہا ہے… اسے سمجھاؤ… اچانک کیا دھن سوار ہوگئی ہے اس پر!‘‘۔
اسلم نے کہا۔ ’’جوانی اسی کا نام ہے گربچن بھائی… اس عمر میں جوکھم والے کھیل نہیں کھیلے تو کیا ہماری عمر میں گل کھلائے گا؟ ویسے تم فکر نہ کرو۔ اس کا سورگ باشی باپ موٹی آسامی تھا…۔ کافی مال ساتھ لایا تھا لاہور سے…۔ اس کے پاس ٹیکسی کے علاوہ بھی کافی مال ہے…۔ ضائع کر بھی دیا تو اور کمالے گا!‘‘۔
گربچن نے کہا۔ ’’تو پھر جو مرضی میرے سرکار کی!… گوالیار کی اناج منڈی کے قریب لال سنگھ فوٹوگرافر کی دکان ہے۔ وہ بھی اپنے گاہکوں میں سے مٹھو سنگھ کے مال کے لیے گاہک ڈھونڈتا رہتا ہے۔ اسی کے ذریعے مانک لال سے رابطہ ہوجائے گا‘‘۔ گربچن سے مزید کچھ سوالات کرکے میں خاموش ہوگیا۔ اسلم نے اس سے مزیدکچھ بات چیت کی اور پھر ہم اس سے اجازت لے کر وہاں سے چلے آئے۔
راستے میں اسلم نے پوچھا۔ ’’بھائی اگر مناسب سمجھو تو بتادو کہ کیا ارادے ہیں؟ یہ بیٹھے بٹھائے کس راستے پر
چل پڑے؟‘‘۔
میں نے ٹھوس لہجے میں کہا۔ ’’آپ نے مٹھو سنگھ کے بارے میں جوکچھ بتایا تھا، اس کے بعد تو دل میں ایک ہی ارادہ پکا ہوا تھا کہ اسے ڈھونڈ کر اس کا کام تمام کر دوں گا۔ لیکن گربچن سنگھ نے آج جو کچھ بتایا ہے، اس کے بعد دماغ کسی اور رخ پر چل پڑا ہے۔ اب میری ایک ہی خواہش اور ارادہ ہے۔ کسی طرح مٹھو سنگھ کے آشرم میں قید مسلمان بچیوں کو ذلت و تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچالوں‘‘۔
اسلم نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’میں نے گزشتہ کچھ دنوں میں تمہاری شخصیت کا جومشاہدہ کیا ہے، اس کی روشنی میں میرا یہی اندازہ تھا۔ لیکن تم نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے، وہ کسی تنہا آدمی کے بس کا نہیں لگتا… اور افسوس۔ اس معاملے میں تمہاری کوئی مدد، میرے لیے ممکن نہیں ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’اسلم بھائی، کیا میرے لیے کامیابی کی دعا بھی نہیں کر سکتے؟ یقین کریں، اس کے علاوہ مجھے آپ سے کچھ بھی درکار نہیں ہے۔ اگر میں یہ سب سن کر بھی کان دباکر اپنے وطن واپس چلا گیا، تو زندگی بھر آئینے میں اپنے آپ سے آنکھ نہیں ملاسکوں گا۔ مجھے اپنی ان مظلوم بہنوں کو ہر قیمت پر مٹھوسنگھ کی قید سے آزادی دلانا ہے، چاہے اس کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑیں!‘‘۔
میری بات سن کر اسلم اچانک رک گیا اور پھر مڑکر مجھے سینے سے لپٹالیا۔ ’’پتا نہیں زندگی میں ہم دوبارہ مل پائیں گے یا نہیں۔ مگر میں تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گا چھوٹے بھائی!‘‘۔ اس کی آواز آنسوؤں میں بھیگی ہوئی تھی۔
جذبات کی طغیانی تھمنے پر ہم دونوں ایک بار پھر تاڑوادی لین کی طرف روانہ ہوئے۔ اب ہم دونوں کے درمیان بہت کم گفتگو ہو رہی تھی کیونکہ میرا ذہن اب آنے والے وقت کے لیے منصوبے بنانے میں مصروف تھا۔ میں نے اسلم کو اجازت دے دی تھی کہ افتخار صاحب کو میرے ارادوں سے باخبر کر دے۔
ہم دونوں تاڑوادی لین پہنچے تو نصف رات ہونے کے باوجود وہاں چہل پہل کا سماں نظر آیا۔ ہم دونوں اپنی اپنی ٹیکسیوں میں وہاںسے روانہ ہوئے اور پھر اپنے ٹھکانوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ اگلے روز میں اسلم بھائی کے ساتھ اکبر باوا کے پاس پہنچا اور ٹیکسی واپس کر کے اپنی جمع کردہ قسطوں کی رقم اس سے حاصل کرلی۔ میری خواہش پر اسلم میرے ساتھ صرافہ بازار گیا، جہاں میں نے اپنے پاس موجود بیشتر رقم سے گنیاں (سونے کے سکے) خرید لیں۔ اس سے پہلے میری فرمائش پر اسلم نے میرے ریوالور کے لیے مزید گولیوں کا بندوبست بھی کر دیا۔
افتخار صاحب کی خواہش پر میں نے دوروز بعد حسب سابق خفیہ انداز میں ان سے ملاقات کی۔ اس دوران میں اسلم میرے پٹیالا کے لیے ریل کی ٹکٹ کے بندوبست کی جستجو میں لگا ہوا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ لگ بھگ بارہ سو میل طویل یہ سفر میں آرام سے طے کر سکوں۔ بالآخر اس نے بتایا کہ وہ ہر ممکن کوشش کے باوجود براہ راست پٹیالا کی ٹرین میں ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ البتہ پنجاب میل میں ایک سیٹ مل گئی ہے۔ اس نے کہا۔ ’’بھیا، تمہیں بٹھنڈا اتر کر بذریعہ بس پٹیالا جانا ہوگا۔ ایک سو میل کا فاصلہ ہے۔ تین چار گھنٹوں میں منزل پر پہنچ جاؤ گے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment