شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ کی رہائی کا معاملہ طے نہ ہوسکا

وجیہ احمد صدیقی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے شکیل آفریدی کی حوالگی کے امریکی مطالبے پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کر دیا۔ معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ وائٹ ہائوس میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور مشیر قومی سلامتی جان بولٹن نے شاہ محمود قریشی سے شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ جواباً جب پاکستانی وزیر خارجہ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی باعزت رہائی کا مطالبہ کیا تو امریکی حکام نے کہا کہ یہ ان کی عدالتوں کا فیصلہ ہے۔ اس پر شاہ محمود قریشی نے جواب دیا کہ شکیل آفریدی کو بھی ہماری عدالتوں نے سزا دی ہے اور امریکہ کو ہمارے قوانین کا احترام کرنا ہوگا۔ ذرائع کے بقول امریکیوں کا رویہ پہلے کی طرح جارحانہ نہیں تھا، کیونکہ پاکستانی وزیر خارجہ کا رویہ فدویانہ نہیں تھا۔ دفتر خارجہ کے ذرائع نے شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کئے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دورہ امریکا کے دوران دو طرفہ ملاقاتوں میں شکیل آفریدی کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ایشو پر بھی بات کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں فی الحال کوئی کامیابی نہیں ہوئی، لیکن شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی پر مزید بات چیت کا دروازہ ضرور کھل گیا ہے۔ واضح رہے اس سے قبل وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری بھی یہ کہہ چکی ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکیوں پر یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ پاکستان اب افغانستان میں جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے اور امریکہ کا پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ رویہ بھی اسی وجہ سے ہے کہ پاکستان نے ماضی میں امریکہ کی جنگ کو لڑا اور اپنا اربوں ڈالر کا نقصان کیا۔ اس لیے امریکہ کو اب پاکستان سے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کرناچاہیے، جس میں جنگ کا پہلو ہو۔ اب پاکستان اس کا اتحادی نہیں ہوگا، اور افغانستان سے انخلا کے لیے اسے پاکستان کی ضرورت ہوگی۔ افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ ذرائع کے مطابق شاہ محمود قریشی نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ چین کو افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں شامل کرنا ہوگا۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے پاکستان میں ملاقات میں ان کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا تھا کہ پاکستان ان کے ساتھ افغانستان میں انتہاپسندی کے خلاف لڑے۔ شاہ محمود قریشی بھی یہی پیغام لے کر امریکہ گئے۔ ایک سوال پر ذرائع نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تقریر سے پہلے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے تقریر کی تھی۔ لیکن وہ پاکستانی وزیر خارجہ کی تقریر سنے بغیر بھارت واپس لوٹ گئیں۔ کیونکہ انہیںعلم تھا کہ شاہ محمود قریشی کو امریکی وزیر خارجہ نے ملاقات کا وقت دیا ہے اور بھارتی وزیر خارجہ کو نہیں بلایا۔ امریکہ کو احساس ہوگیا ہے کہ بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک معاہدے کے باوجود وہ پاکستان کی اہمیت کو کم نہیںکر سکا۔ امریکہ کی دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں پاکستان نے مزید ڈو مور کی فرمائش کو ماننے سے انکار کیا تو امریکہ نے پاکستان کی 300 ملین ڈالر کی رقم جو پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کے ضمن میں ملتی تھی، بند کردی۔ اس پر بھی پاکستان نے امریکہ سے اس رقم کی بحالی کی کوئی درخواست نہیں کی تو امریکہ نے آئی ایم ایف کو کہا کہ وہ پاکستان پر پابندی لگائے کہ وہ اس کے قرضوں کو چین سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی میں استعمال نہ کرے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے بھی نئے قرضوں کا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ امریکہ کو پاکستان کی نئی حکومت کے رجحانات کا علم ہوگیا ہے۔ جس کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم پاکستان کی نئی حکومت سے تعلقات کی بحالی پر بات کریں اور نئے تعلقات کی بنیاد اقتصادیات اور تجارت پر ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات کی بحالی کی بات کی جارہی ہے۔ لیکن پاکستان اب چین کو اعتماد میں لیے بغیر امریکہ کے ساتھ تعلقات کو پہلے جیسی سطح پر نہیں لانا چاہتا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ چین اور امریکہ کے درمیان رابطوں کو خوشگوار بنائے۔ یاد رہے کہ چین اور امریکہ کا پہلا رابطہ بھی پاکستان نے کروایا تھا، جب1971ء میں سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر جو اس وقت امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر تھے، اسلام آباد آئے اور یہاں سے نتھیا گلی گئے اور وہاں سے انہیں خفیہ طورپر چین لے جایا گیا۔ ہنری کیسنجر نے 9 جولائی سے 11 جولائی 1971ء تک چین کا دورہ کیا اور اسی دورے کی وجہ سے امریکی صدر رچرڈ نکسن کا فروری 1972ء میں چین کا دورہ ممکن ہوسکا۔ لیکن پاکستان کو اس کا صلہ کچھ اچھا نہیں ملا۔ یہ 1971ء ہی تھا جب مشرقی پاکستان پر بھارت کے حملے کی وجہ سے پاکستان امریکی بحری بیڑے کا انتظار کرتا رہ گیا۔ اب بھی امریکہ پاکستان کو طالبان سے مذاکرات کے لیے کے پل بنانا چاہتا ہے۔ اس کی یہ بھی خواہش ہے کہ چین کو بھی پاکستان امریکہ کی میز پر لائے، تاکہ دونوں ممالک اپنے اپنے تجارتی مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ امریکی ملاقات میں اس بار وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے امریکی حکام نے نہ حقانی نیٹ ورک کی بات کی اور نہ ہی بھارت کے مطالبے کو دوہراتے ہوئے حافظ سعید کا نام لیا۔ بلکہ اس کے برعکس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس لانے کی بات ہوئی ہے اور افغانستان کے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment