سندھ حکومت نے آراوپلانٹس پر 15 ارب روپے ڈبودیئے

عظمت علی رحمانی

واٹر بورڈ نے سیاسی ایما پر کمپنی کو نوازنے اور کمیشن کھرا کرنے کیلئے لیاری اور کیماڑی میں 18 آر او پلانٹس پر 15 ارب روپے ڈبو دیئے۔ متعلقہ کمپنی کو ہر سال آر و پلانٹس کو چلانے اور اس کی مینٹینس کیلئے 55 کروڑ روپے سے زائد دیئے جاتے ہیں۔ مذکورہ پلانٹس سے معاہدے کے مطابق یومیہ ایک کروڑ 30 لاکھ گیلن پانی حاصل کرنا تھا، جو اس کا نصف بھی حاصل نہیں کیا جاسکا۔
دستاویزات کے مطابق واٹر بورڈ کی جانب سے سندھ حکومت کے تعاون سے 2011ء اور 2012ء میں لیاری، ماڑی پور اور کیماڑی کے لاکھوں مکینوں کیلئے صاف پانی کا ایک منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔ واٹر بورڈ کی جانب سے سابق افسر عمران آصف کو اس پروجیکٹ کا ڈائریکٹر بنایا گیا تھا۔ جبکہ اس پروجیکٹ کی ناقص پلاننگ کرنے والے سابق ڈی ایم ڈی مشکور الحسنین تھے۔ جس کی وجہ سے یہ منصوبہ 7 برس بعد بھی اپنے مقاصد پورے نہیں کر سکا ہے۔
منصوبے کے تحت لیاری و کیماڑی سمیت دیگر علاقوں کے شہریوں کو یومیہ 1 کروڑ گیلن پانی آر او (ریسورس اوسموس) پلانٹس کے ذریعے فراہم کیا جانا تھا۔ پروجیکٹ 5 ارب 55 کروڑ کی لاگت سے شروع کیا گیا تھا جس کے بعد اس میں مزید اضافہ کیا گیا۔ واٹر بورڈ کی جانب سے من پسند افسران کو نوازنے اور سیاسی بنیادوں پر اس پروجیکٹ کا ٹھیکہ ایسی کمپنی کو دیا گیا، جس کی شفافیت کے تمام ضابطوں کر بروئے کار لایا ہی نہیں گیا۔ واٹر بورڈ کی جانب سے اس کمپنی کا ٹھیکہ ’’پاک اوسس‘‘ کو دیا گیا، جس نے کیماڑی اور لیاری کے شہریوں کیلئے 18 آر او پلانٹس لگائے تھے۔ ان میں 10 آر او پلانٹس کیماڑی، جبکہ 10 لیاری میں لگائے گئے تھے، جن میں ذرائع کے مطابق مکمل طور پر مشنری بھی نصب نہیں کی گئی تھی۔ جس کی وجہ سے یومیہ ایک کروڑ 30 لاکھ گیلن پانی حاصل کرنے والے پروجیکٹ سے 50 لاکھ گیلن یومیہ پانی بھی حاصل نہیں کیا جا سکا۔ حیرت انگیز طور پر اس پروجیکٹ کے اختتام کے بعد بھی یہ پروجیکٹ اسی کمپنی کے ذریعے جاری رکھا گیا، تاکہ کمپنی اور واٹر بورڈ کے افسران کی کمائی جاری رہے۔
واٹر بورڈ کی جانب سے سیاسی بنیادوں پر جاری اس پروجیکٹ کی سالانہ منٹی ننس کے نام پر بھی ہر برس کمپنی کو 55 کروڑ روپے دیئے جاتے ہیں، جس کے مطابق کمپنی مذکورہ 18 آر او پلانٹس کو چلائے گی۔ شہر کے ان 18 آر او پلانٹس کو چلانے اور ان کی مینٹی ننس کیلئے ہر سال جولائی میں ان کا کنٹریکٹ آگے بڑھایا جاتا ہے، یعنی ماہانہ ان پلانٹس پر واٹر بورڈ 4 کروڑ 58 لاکھ 33 ہزار 333 روپے خرچ کرتا ہے، جبکہ ایک ایک آر او پلانٹ پر سال میں واٹر بورڈ 3 کروڑ 5 لاکھ 55 ہزار 555 روپے اور ماہانہ ایک پلانٹ پر25 لاکھ 46 ہزار 296 روپے خرچ کرتا ہے اور یوں یومیہ ایک پلانٹ پر 84 ہزار 876 روپے 54 پیسے خرچ کئے جاتے ہیں۔ 2012 سے اب تک اس پروجیکٹ پر لگ بھگ 15 ارب روپے خرچ کئے جاچکے ہیں، اس کے باوجود بھی شہریوں کو یومیہ 50 لاکھ گیلن پانی بھی فراہم نہیں ہو سکا ہے نہ ہی مذکورہ علاقوں سے پانی کے چارجز یعنی ریونیو حاصل ہو سکا ہے۔
ڈی ایم ڈی مشکورالحسنین کی ناقص پالیسی کی وجہ سے 15 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود لیاری و کیماڑی کے مکینوں کو پانی کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکی ہے، جبکہ اس کے برعکس کراچی کیلئے 2006 میں ’’کے ٹو‘‘ نام کا ایک منصوبہ شروع کیا گیا تھا، جس کی کل لاگت 6 ارب روپے رکھی گئی تھی۔ ان اخراجات کے بعد شہریوں کو یومیہ 10کروڑ گیلن پانی پہنچایا جانا تھا، جس سے آج بھی پانی سپلائی کیا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیشنل لوجسٹک کارپوریشن (این ایل سی )کو سوا ایک ارب روپے کا منصوبہ دیا گیا ہے، جو یومیہ 6 کروڑ 50 لاکھ گیلن پانی کی فراہمی کرے گی۔ جبکہ حیرت انگیز طور پر 15 ارب روپے لگانے کے بعد بھی واٹر بورڈ اسی کمپنی کو پانی کی فراہمی کا ٹھیکدار رکھنا چاہتا ہے۔ واٹر بورڈ ذرائع کے مطابق اگر واٹر بورڈ کا پلاننگ ڈیپارٹمنٹ بہتر پلاننگ کرتا تو ان 15 ارب روپوں میں شہریوں اور خصوصاً لیاری و کیماڑی کے مکینوں کو یومیہ 10کروڑ سے 15کروڑ گیلن پانی کی فراہمی بآسانی کی جاسکتی تھی اور ماہانہ پانی کے سروس چارجز بھی کروڑوں میں مل سکتے تھے۔ اس پروجیکٹ کے ڈائریکٹر عمران آصف کو کاغذات میں ٹمپرنگ کرنے کی وجہ سے مزید توسیع دیئے بغیر ہی ریٹائرمنٹ دے دی گئی تھی۔ جس کے بعد اس پروجیکٹ کا ڈائریکٹر محمد عارف کو بنایا گیا جنہوں نے اسی کمیشن پالیسی پر مذکوہ پروجیکٹ کو آگے بڑھایا، جس کے بعد گزشتہ ایک ڈیڑھ برس سے اس پروجیکٹ کے ڈائریکٹر کی ذمہ داری ایسے افسر کو دی گئی ہے، جو اپنے سرکاری فرائض کی انجام دہی بھی مکمل کرنے سے قاصر ہیں۔ موجودہ پی ڈی اویس ملک نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ تمام آر او پلانٹس میں سے 3 سے 4 فنکشنل ہوں گے باقی بند ہیں۔ کیونکہ ان پلانٹس کے آپریشن اور مینٹی ننس کے ٹھیکے کی مدت رواں سال یکم ستمبر کو ختم ہوگئی تھی۔ اس حوالے سے ڈی ایم ڈی ٹیکنیکل سروس اسدا للہ خان سے بھی رابطہ کیا گیا، تاہم انہوں نے کال ریسیو نہیں کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پلانٹ کی تنصیب کے وقت 18 پلانٹس سے زیر زمین پانی کو صاف کر کے لیاری اور کیماڑی کے مکینوں کو مجموعی طور پر ایک کروڑ 30 لاکھ گیلن سپلائی کیاجانا تھا۔ ان پلانٹس میں سے زیادہ تر 5 لاکھ گیلن یومیہ پانی ٹریٹ کرنے کی گنجائش کے حامل ہیں، لیکن دو پلانٹ مکمل بند تھے۔ بقیہ 16 پلانٹ بھی مجموعی گنجائش کے بمشکل10 سے 15 فیصد پانی ٹریٹ کرکے شہریوں کو سپلائی کررہے تھے۔ ان تمام کے مکمل بند ہوجانے سے مذکورہ علاقوں کے مکینوں کو شدید مشکلات ہیں، ان کیلئے صاف اور میٹھے پانی کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے کیماڑی کے مکینوں کا کہنا ہے کہ انہیں ایک دن بھی ان آر و پلانٹس سے پانی نہیں ملا ہے۔ صاحب گل کا کہنا ہے کہ ہمیں واٹر بورڈ کی لائنوں سے پانی کا آنا ایک خواب لگتا ہے، کبھی بھی ان آر او پلانٹس سے کیماڑی میں آتا پانی دکھائی نہیں دیا ہے، ہمیشہ سے ٹینکروں کے ذریعے پانی استعمال کرتے ہیں۔ کیماڑی کے ہی رہائشی محمد نثار کے مطابق آر او پلانٹس سے پانی کی فراہمی نہیں ہوتی ہے نہ ہی لائن کے ذریعے پانی آتا ہے آصف اور لطیف کا بھی کہنا ہے کہ وہ کیماڑی کے رہائشی ہیں۔ ان کے گھروں تک واٹر بورڈ کی لائنیں ضرور بچھائی گئی ہیں مگر کبھی پانی نہیں آیا اور ہمیشہ سے پانی خرید کر استعمال کررہے ہیں۔ پاک اوسس کمپنی کے پاکستان کے انچارج ارشد حسین سے ان کے فون پر رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 5 سال تک ان آر او پلانٹس کو چلایا ہے، جبکہ دو ماہ سے کنٹریکٹ ختم ہو چکا تھا جس کے باوجود بھی ہم انہیں پلانٹس بند نہیں کئے، لیکن اب ہم ان کو مزید چلانے میں دلچپسی نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ہم نے حالیہ ٹینڈر میں دلچپسی بھی نہیں لی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment