حضرت شاہ صاحبؒ نمبر 18 پر تحریر فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد صاحبؒ نے ارشاد فرمایا کہ ابتدائے طالب علمی میں مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھا کروں، مگر مجھے اس میں علماء کے اختلاف کی وجہ سے تردد تھا کہ ایسا کروں یا نہ کروں۔ میں نے خواب میں نبی کرمؐ کی زیارت کی۔
حضور اقدسؐ نے مجھے خواب میں ایک روٹی مرحمت فرمائی۔ حضرات شیخینؓ وغیرہ تشریف فرما تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: الہدایا مشترکۃ۔ یعنی ہدیئے مشترک ہوتے ہیں۔ تو میں نے وہ روٹی ان کے سامنے کر دی۔ انہوں نے ایک ٹکڑا توڑ لیا۔ پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا الہدایا مشترکۃ۔ میں نے وہ روٹی ان کے سامنے کردی۔ انہوں نے بھی ایک ٹکڑا توڑ لیا۔ پھر حضرت عثمانؓ نے فرمایا الہدایا مشترکۃ۔ میں نے عرض کیا کہ اگر یہی الہدایا مشترکۃ رہا یہ روٹی تو اسی طرح تقسیم ہو جائے گی، مجھ فقیر کے پاس کیا بچے گا؟ حرزثمین میں تو یہ قصہ اتنا ہی لکھا ہے، لیکن حضرت کی دوسری کتاب ’’الفاس العارفین‘‘ میں کچھ اور بھی تفصیل ہے، وہ یہ کہ میں نے سونے سے اٹھنے کے بعد اس پر غور کیا کہ اس کی کیا وجہ کہ حضرات شیخینؓ کے کہنے پر تو میں نے روٹی ان کے سامنے کردی اور حضرت عثمانؓ کے فرمانے پر انکار کردیا۔ میرے ذہن میں اس کی وجہ یہ آئی کہ میری نسبت نقشبندیہ حضرت صدیق اکبرؓ سے ملتی ہے اور میرا سلسلہ نسب حضرت عمرؓ سے ملتا ہے، اس لئے ان دونوں حضرات کے سامنے تو مجھے انکار کی جرات نہیں ہوئی اور حضرت عثمانؓ سے میرا نہ تو سلسلہ سلوک ملتا تھا نہ سلسلہ نسب، اس لئے وہاں بولنے کی جرأت ہوگئی۔ فقط۔ یہ حدیث الہدایا مشترکتہ والی محدثین کے نزدیک تو متکلم فیہ ہے اور اس کے متعلق اپنے رسالہ فضائل حج کے ختم پر بھی دو قصے ایک قصہ ایک بزرگ کا اور دوسرا قصہ حضرت امام ابو یوسفؒ فقیہ الامت کا لکھ چکا ہوں۔ اس جگہ اس حدیث سے تعرض نہیں کرنا تھا۔ اس جگہ تو یہ بیان کرنا تھا کہ اجود الناس سید الکونین علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم کی امت پر مادی برکات بھی روز افرزوں ہیں۔ (جاری ہے)