معارف القرآن

معارف و مسائل
سورئہ رحمن کے مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ امام قرطبیؒ نے چند روایات حدیث کی وجہ سے مکی ہونے کو ترجیح دی ہے۔ ترمذی میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اقدسؐ نے کچھ لوگوں کے سامنے سورئہ رحمن پوری تلاوت فرمائی۔ یہ لوگ سن کر خاموش رہے تو آپؐ نے فرمایا کہ میں نے لیلتہ الجن میں جنات کے سامنے یہ سورت تلاوت کی تو اثر قبول کرنے کے اعتبار سے وہ تم سے بہتر رہے، کیونکہ جب میں قرآن کے اس جملے پر پہنچتا تھا ’’فبای آلاء … الخ تو جنات سب کے سب بول اٹھتے تھے ’’لا بشی من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد‘‘ یعنی ’’اے ہمارے پروردگار! ہم آپ کی کسی بھی نعمت کی تکذیب و ناشکری نہ کریں گے، آپ ہی کے لئے حمد ہے‘‘۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ سورت مکی ہے، کیونکہ لیلتہ الجن وہ رات جس میں آنحضرتؐ نے جناب کو تبلیغ و تعلیم فرمائی، مکہ مکرمہ میں ہوئی ہے۔اسی طرح کی اور بھی چند روایات قرطبی نے نقل کی ہیں، جن سے اس سورت کا مکی ہونا معلوم ہوتا ہے، اس سورت کو لفظ رحمن سے شروع کیا گیا، اس میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ کفار مکہ حق تعالیٰ کے ناموں میں سے رحمن سے واقف نہ تھے، اسی لئے کہتے تھے وما الرحمن کہ رحمن کیا چیز ہے؟ ان لوگوں کو واقف کرنے کے لئے حق تعالیٰ کے ناموں میں سے یہاں رحمن کا انتخاب کیا گیا۔دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ آگے جو کام رحمن کا ذکر کیا گیا ہے، یعنی تعلیم قرآن، اس میں یہ بھی بتلا دیا گیا کہ اس تعلیم قرآن کا مقتضی اور سبب داعی صرف حق تعالیٰ کی رحمت ہے، ورنہ اس کے ذمہ کوئی کام واجب و ضروری نہیں، جس کا اس سے سوال کیا جا سکے اور نہ وہ کسی کا محتاج ہے۔آگے پوری سورت میں حق تعالیٰ کی دنیوی اور دینی نعمتوں کا ذکر مسلسل ہوا ہے۔ ’’قرآن کی تعلیم ‘‘ حق تعالیٰ کی نعمتوں میں جو سب سے بڑی نعمت ہے، اس کے ذکر سے ابتداء کی گئی اور سب سے بڑی نعمت قرآن ہے، کیونکہ قرآن کریم انسان کے معاش اور معاد، دین اور دنیا دونوں کو خیرات و برکات کا جامع ہے، جنہوں نے قرآن کو لیا اور اس کا حق ادا کیا، جیسے صحابہ کرامؓ، حق تعالیٰ نے ان کو آخرت کے درجات اور نعمتوں سے تو سرفراز فرمایا ہی ہے، دنیا میں بھی وہ درجہ اور مقام عطا فرمایا، جو بڑے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل نہیں۔(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment