حصہ اول
ابوالحسن شریف محمد بن عمر کہتے ہیں:
’’جب مجھے نیشاپور میں خست کے قلعے میں عضد الدولہ نے قید کیا تو قلعے کا مالک جس کے میں حوالے کیا گیا تھا، مجھے بات چیت کے ذریعے مانوس کرتا تھا (یعنی میرا دل بہلاتا تھا)۔‘‘
پھر ایک وہ دن کہنے لگا: ’’اس سے پہلے یہ قلعہ ایک ایسے شخص کے قبضے میں تھا، جو ان شہروں میں مقبول تھا۔ پھر وہ لیڈر بن گیا اور چور اچکے اس کے پاس جمع ہونے لگے اور وہ ان کے ساتھ مل کر گردو نواح میں ڈاکے ڈالنے اور فتنہ انگیزی کرنے لگے۔ راستے اور بستیاں لوٹنے لگے اور فساد مچانے لگے۔ ان کے خلاف کوئی تدبیر کام نہ آئی۔‘‘
ایک دفعہ ابو الفضل بن عمید نے اس قلعے کا محاصرہ کر کے اس کو فتح کر لیا اور اس ڈاکو لیڈر کو عضد الدولہ کے حوالے کر دیا اور اس کے ساتھ اس کے پچاس ساتھیوں کو بھی گرفتار کر لیا۔ تو اس نے ان کو اس طریقے سے قتل کرنے کا ارادہ کیا، جس سے سارے قلعے والے ڈر جائیں اور وہ قلعہ ایک بڑے پہاڑ پر تھا، جس کے قریب میں ایک اور بڑا پہاڑ تھا اور اسی پہاڑ پر ابوالفضل نے بھی پڑائو ڈالا ہوا تھا۔ اس نے قیدیوں کے بارے میں حکم دیا کہ ان کو پہاڑ کی چوٹی سے پھینکا جائے، چنانچہ ان میں سے کسی کو پھینکا جاتا، وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نیچے پہنچتا۔ کیونکہ پہاڑ سے باہر نکلی ہوئی نوکیں ان کو کاٹ ڈالتی تھیں۔ ان سب کے ساتھ یہی کیا گیا۔
ان میں ایک لڑکا تھا جس کی ابھی ڈاڑھی بھی نہیں آئی تھی۔ جب اس کو پھینکا گیا تو وہ صحیح سالم نیچے پہنچ گیا اور اس کو خراش تک نہیں آئی اور اس کی رسیاں بھی کٹ گئی تھیں۔ لڑکا آزادی کی جستجو میں اپنی بیڑیوں سمیت کھڑا ہو کر چلنے لگا۔ ابوالفضل کے لشکر اور قلعے والے اس عجیب صورت حال کو دیکھ کر بے اختیار تکبیر کے نعرے بلند کئے۔
ابوالفضل کو غصہ آگیا اور اس نے لڑکے کو دوبارہ جکڑ کر پھینکنے کا حکم دیا۔ حاضرین مجلس نے اس سے گزارش کی کہ وہ لڑکے کو معاف کر دے، لیکن اس نے انکار کر دیا۔ لوگوں نے بہت اصرار کیا تو اس نے قسم کھائی کہ اس کو ضرور پھینکنا ہے تو وہ خاموش ہو گئے۔ چنانچہ لڑکا دوبارہ پھینکا گیا، جب وہ نیچے پہنچا تو دوبارہ کھڑا ہو کر چلنے لگا۔ اس دفعہ پہلے سے بھی زیادہ تکبیر بلند ہوئی۔
حاضرین مجلس نے اس لڑکے کے لیے دوبارہ معافی کی گزارش کی اور بعض ان میں سے رو پڑے۔ ابو الفضل شرمندہ ہو گیا اور تعجب میں پڑ گیا اور کہا: ’’اس کو امن کے ساتھ دوبارہ حاضر کرو۔‘‘
وہ حاضر کیا گیا۔ ابوالفضل نے لڑکے کی رسیاں کھولنے اور بہترین کپڑے پہنانے کا حکم دیا اور اس سے کہا: ’’مجھے اپنے رب تعالیٰ سے اس خفیہ تعلق کے بارے میں سچ سچ بتائو، جس کی وجہ سے اس نے تمہیں بچا لیا۔‘‘
لڑکے نے کہا: ’’میرے علم میں تو ایسی کوئی بات نہیں جو اس کا سبب بنے، ہاں ایک بات ہے کہ میں بچپن میں اپنے فلاں استاد کے ساتھ گھوما کرتا تھا، جس کو تم نے ابھی پہاڑ سے گرا کر مار دیا ہے، وہ مجھے ساتھ لے کر نکلتا تھا تو ہم ڈاکے ڈالتے تھے اور مسافروں کو خوف زدہ کرتے تھے اور جو ملتا تھا اس کو لے لیتے تھے اس کے علاوہ میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘ابوالفضل نے کہا: ’’کیا تم نماز اور روزے کی پابندی کرتے تھے؟‘‘لڑکے نے کہا: ’’میں تو نماز سے واقف بھی نہیں اور نہ کبھی میں نے روزہ رکھا اور نہ ہی ہم میں کوئی روزہ رکھتا تھا۔‘‘ابوالفضل نے اس سے کہا: ’’تمہارا ناس ہو، پھر وہ کیا معاملہ ہے، جس کی وجہ سے حق تعالیٰ نے تمہیں بچا لیا، کیا تم صدقہ کیا کرتے تھے؟‘‘لڑکے نے کہا: ’’ہمارے پاس آتا ہی کون تھا جس پر ہم صدقہ کرتے۔‘‘ (جاری ہے)