امریکا کی اس نوجوان ڈاکٹر نے ترجمہ قرآن پاک ناقدانہ نظر سے مطالعہ کیا ہے ، دوران مطالعہ وہ اس کے اندر (مغرب کی مزعومہ) غلطیاں ڈھونڈتی تھی، لیکن اس وقت اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اسے اس لازوال کتاب میں اپنے ہر اس سوال کا شافی اور تسلی بخش جواب مل گیا، جو بچپن ہی سے اس کے ذہن ودماغ میں گردش کیا کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند ماہ بعد ہی اس نے اپنے قبول اسلام کا اعلان کر دیا اور اب اس کا اسلامی نام ماریہ ہے۔
25 سال کی جواں سال امریکن ڈاکٹر اپنی سرگزشت آپ ہی بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ امریکا کے صوبہ کلیولینڈ میں میری پرورش ایک مذہبی متشدد کیتھولک گھرانے میں ہوئی۔ علم النفس میں، میں نے B.A کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد میں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا، جہاں اس وقت میں M.A کا مقالہ تیار کر رہی ہوں، مگر میں اپنے عقائد اور افکار وخیالات سے مطمئن نہیں تھی۔ مجھے ہمیشہ ایک مبہم سا انجانا کرب و اضطراب ستاتا رہا ہے اور ’’تثلیث‘‘ کی ماہیت وحقیقت کے متعلق میرے ذہن میں طرح طرح کے سوالات اٹھتے رہتے۔ مزید برآں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ اور آرتھوڈکس فرقوں میں بٹ کر نصرانیت ومسیحیت کا تصور کیوں مختلف ہو جاتا ہے؟ اور ہر ایک کے اندر اس کا ایک خاص مفہوم کیوں متعین ہو جاتا ہے؟ میرا ایمان تو صرف ایک خدا پر تھا، غلطی و سچائی اور حق و ناحق کے درمیان میں امتیاز کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی، مگر اسلام کے متعلق سنجیدگی سے اس زاویہ نظر سے کبھی نہیں سوچا کہ یہ بھی کوئی قابل قبول اور قابل تقلید دین ومذہب ہے۔ اسلام کے متعلق میرا جو کچھ تصور تھا، وہ صرف یہ تھا کہ وہ یرغمالیوں اور جنگوں اور دہشت گردی و تشدد پسندی، انتہا پرستی وبنیاد پرستی کا دین ہے اور یہ کہ مسلمان قتل و خوں ریزی، ظلم وسفاکی کی خوگر ایک وحشی قوم ہے۔
محترمہ ماریہ مزید کہتی ہیں: ’’میرے قبول اسلام کی کہانی اس وقت شروع ہوئی جب میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ترجمہ قرآن پاک کا تنقیدی نگاہ سے مطالعہ شروع کیا، تاکہ مجھے یہ معلوم ہو سکے کہ آیا یہ حق ہے یا باطل؟ لیکن اس وقت میں حیرت ومسرت کے ملے جلے جذبات میں ڈوب کر رہ گئی، جب میں نے دیکھا کہ اسلام کا عقیدہ تو نہایت واضح روشن اور صاف ستھرا ہے اور اس کے اندر خدا کا جو تصور ہے، وہ بھی بے غبار ہے، یعنی’’تمہارا معبود صرف ایک ہے۔‘‘
مطالعہ کے بعد مجھے ایک طرح کی ذہنی آسودگی اور قلبی اطمینان وسکون حاصل ہوا اور جو سوالات میرے حاشیہ ذہن پر گردش کر رہے تھے، قرآن میں مجھے ہر ایک کا تسلی بخش جواب مل گیا۔ اس کے بعد تو میں نے قرآن پاک اور دیگر اسلامی موضوعات کے مطالعہ کو اپنا محبوب مشغلہ بنا لیا اور اسلام کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے اچھی طرح مطالعہ کیا۔ چناں چہ پیغمبر اسلامؐ اور آپؐ کے مقدس صحابہ کرامؓ کی سیرت اور اسلامی تاریخ کا بھی مطالعہ کیا۔ اسلام نے صنف نازک کو جو مقام ومرتبہ اور حقوق صدیوں سے دے رکھے ہیں اس نے میری نگاہوں کو خیرہ کر دیا، جب کہ امریکا میں عورتوں کی اپنے حقوق کی باز یابی اور برابری کے مطالبے کی تاریخ چند برسوں سے زیادہ نہیں۔اس کے بعد دوسرا قدم میں نے یہ اٹھایا کہ مسلم مردوں، عورتوں اور ان کی عائلی وخانگی زندگی کا تجزیہ کرنا شروع کیا اور امریکیوں کی اور ان کی معاشرتی واجتماعی زندگی کا تقابل وموازنہ کیا اور یہ بھی میری خوش قسمتی ہے کہ حسن اتفاق سے میری ملاقات بعض دین دار اور شریف مسلم گھرانوں سے ہوئی، ان کے طریقہ زندگی، طرز معاشرت، خانگی آداب، بچوں کی نگہداشت اور ان کے ساتھ شفقت ومحبت کا برتاؤ دیکھ کر میں مسحور ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے سے پیار ومحبت کا معاملہ کرتے ہیں اور ہر ایک دوسرے کی طرح اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتا ہے اور اس کا بالمقابل جو بھی کام کرتا ہے، اسے قدر واحترام کی نظر سے دیکھتا ہے اور یہ وہ بات ہے، جو امریکا کے بیشتر گھرانوں میں عنقاء ہے۔ ان ساری باتوںکو دیکھ کر میں اسلام سے حد درجہ متاثر ہوئی اور بالآخر اس دین کو قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔اس سوال کے جواب میں کہ اسلام میں عورتوں کے ساتھ جو احکام مخصوص ہیں، ان میں کون سا حکم آپ کو سب سے زیادہ پسند آیا؟ ماریہ کا کہنا تھا کہ حجاب، کیوں کہ مجھے مکمل یقین اور اطمینان ہے کہ عورت کا اپنے جسم کو ڈھکا رکھنا اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ مردوں سے کمتر ہے، اس طرح اسلام مطلقہ عورتوں کو خاص مدت تک نفقہ دیتا ہے اور مزید اسے شوہر کے گھر میں رہنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔ اگر امریکا میں ایسا ہوتا تو ہزاروں مطلقہ عورتیں یوں بے گھر، دربدر ماری ماری نہ پھرتیں۔ پھر یہ کہ اسلام نے عورتوں کی اصلی ذمہ داریوں کی بھی وضاحت کے ساتھ تجدید کی ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ اپنے گھر او ربال بچوں کی نگہداشت کرے، کیوں کہ بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے وقت دینادراصل تہذیب وتمدن کی تعمیر وترقی کے مترادف ہے، بصورت دیگر بچے شتر بے مہار کی طرح بلا کسی تربیت کے پرورش پائیں گے۔ جیسا کہ آج کل امریکا میں عام طور سے دیکھنے کو ملتا ہے۔امریکیوں کے نزدیک اسلام کا تصور نہایت ہی گھناؤنا اور مسخ شدہ ہے، جو بہت حد تک سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ ذہنی طور سے وہ اسلام کو ایک جنگ جو اور لڑاکا مذہب گردانتے ہیں، جو ہمیشہ آمادہ قتل وخوں ریزی اور آمادہ دہشت وبربریت ہوتا ہے۔ چناں چہ وہ کبھی بھی اسلام کو ایک نظام حیات کے طور پر نہیں دیکھتے، اس لیے ہمارے لیے سب سے زیادہ جو ضروری ہے وہ یہ کہ ہم انہیں اسلام کا ہر زاویہ سے تعارف کرائیں اور انہیں یہ بتائیں کہ اسلام ایک مکمل، ہمہ گیر نظام حیات ہے او ران کے سامنے عملی زندگی میں اچھا نمونہ پیش کریں اور ہم تمام مسلمان اپنے خاندانوں کی عمارتیں اسلامی اصولوں کی بنیادوں پر استوار کریں۔