عمران خان
منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل پانے والی جے آئی ٹی کی تفتیش سے سندھ پولیس سے ایف آئی اے میں آنے والے افسران کو علیحدہ کردیا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول اس وقت منی لانڈرنگ تحقیقات پر ایف آئی اے کے 20 افسران تحقیقات پر مامور ہیں تاہم ان میں سندھ پولیس سے ایف آئی آنے والے افسران شامل نہیں ہیں۔ ذرائع کے بقول جن افسران کو تحقیقات سے علیحدہ کیا گیا ہے ان میں ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ منیر شیخ، ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے عبداسلام شیخ، ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے فضل اللہ کوریجو، ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے عرب مہر اور ایڈیشل ڈائریکٹر ایف آئی اے عبدالحمیدکھوسو وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سندھ پولیس کے وہ ڈی آئی جی اور ایس ایس پیز ہیں جو حال ہی میں ڈیپوٹیشن پر ایف آئی اے میں آئے تھے۔ ذرائع کے بقول یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید، ان کے بیٹے اے جی مجید، سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سمیت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی دیگر شخصیات کے علاوہ سندھ کے بااثر افراد شامل ہیں اور ان میں سے کئی افراد سندھ پولیس سے ایف آئی اے میں آنے والے افسران پر اپنا گہرا اثر رسوخ رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے ذریعے نہ صرف تحقیقات کو متاثر کرسکتے ہیں بلکہ تحقیقات میں سامنے آنے والی اہم معلومات اور پیش رفت سے متعلق ملوث افراد کو پیشگی اطلاع دے سکتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ ماہ ایف آئی اے میں زیر حراست انور مجید اور ان کے بیٹے اے جی مجید سے مختلف افراد کی ملاقاتیں کرائی گئیں۔ جن کا انکشاف ہونے پر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن کی ہدایت پر انکوائری کی گئی تو معلوم ہوا کہ سندھ پولیس سے ایف آئی اے میں آنے والے ایس ایس پیز عرب مہر اور عبدالسلام شیخ یہ ملاقاتیں کرانے میں ملوث تھے۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر سطح کے یہ افسران مختلف سرکلوں کے انچارج ہیں اور سیاسی اثر و رسوخ والی شہرت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی ایکشن تو نہیں لیا گیا، تاہم اسی وقت ان افسران کو منی لانڈرنگ کی تحقیقات سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا۔
چند روز قبل منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات میں اس وقت ایک اہم پیش رفت سامنے آئی جب ایف آئی اے کی تحقیقات میں سندھ بینک، سمٹ بینک اور الائیڈ بینک میں کھولے گئے 35 مشکوک اکائونٹس کے ذریعہ رقوم کی ترسیل سے منسلک 334 افراد کے نام ایف آئی اے امیگریشن کی اسٹاپ لسٹ میں ڈالے گئے۔ کیونکہ ان تمام افراد کے حوالے سے جے آئی ٹی ممبران باوثوق معلومات نہیں رکھتے کہ آیا ان افراد میں سے کون کہاں پر ہے اور ان کی گرفتاریاں کہاں سے اور کیسے عمل میں لائی جائیں۔ اسی لئے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن کو رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ ان افراد کے ناموں اور کوائف کو ایف آئی اے کی امیگریشن فہرست میں شامل اسٹاپ لسٹ میں شامل کردیا جائے اور ان کے نام باقاعدہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کیلئے پروسس شروع کردیا جائے۔ تاکہ یہ افراد ملک سے باہر جانے کی کوشش یا واپسی کے وقت گرفتار کئے جاسکیں۔ اسی دوران شبیر نامی ایک شخص کو ایک ہفتہ قبل کراچی ایئر پورٹ سے امیگریشن حکام نے اس وقت حراست میں لیا جب وہ بیرون ملک سے کراچی آیا اور سندھ پولیس کی اسپیشل برانچ کے ذریعے پروٹوکول لے کر ایئر پورٹ سے باہر نکلنے کی کوشش کی، تاہم اس کو ایئر پورٹ سے باہر نکلتے ہوئے حراست میں لے کر واپس امیگریشن کائونٹر پر لایا گیا اور اس کے کوائف کے اسٹاپ لسٹ میں موجودگی کی تصدیق کے بعد اس کو گرفتار کرکے ایف آئی اے گلستان جوہر کے ہیڈ آفس میں قائم جے آئی ٹی سیکریٹریٹ میں منتقل کردیا گیا۔ جہاں سے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے والے جے آئی ٹی ممبران نے اس سے چار روز تک تفتیش کرنے کے بعد رہا کردیا۔ تاہم اس کو پابند کیا گیا کہ وہ بغیر بتائے شہر نہیں چھوڑ سکتا اور اس کو کبھی بھی دوبارہ طلب کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور شخص وسیم کو بھی کراچی ایئر پورٹ سے بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہوئے ایف آئی اے امیگریشن کے افسران نے اس وقت روک دیا جب اس کا نام اسی اسٹاپ لسٹ میں موجود پایا گیا۔ ذرائع کے بقول اس شخص کی گرفتاری اور رہائی اور اس دوران ہونے والی تفتیش انتہائی خفیہ رکھی گئی، یہاں تک کے سندھ پولیس سے ایف آئی اے میں آنے والے ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ منیر شیخ بھی ان معاملات سے مکمل طور پر لاعلم رہے۔ اس حوالے سے منیر شیخ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ شبیر کی گرفتاری اور رہائی کے معاملات جے آئی ٹی کے پاس ہیں، جس کی انہیں کوئی اطلاع نہیں دی جاتی بلکہ ایک روز کے بعد انہیں رپورٹ ملتی ہے کہ گزشتہ روز کیا ہوا تھا۔
ذرائع کے بقول حراست میں لیا جانے والا شخص شبیر کینیڈا میں مقیم بلڈر اور اہم شخصیت سیٹھ یونس کا فرنٹ مین ہے، جس سے جے آئی ٹی نے تین روز تک تحقیقات کیں۔ جبکہ سیٹھ یونس کے بارے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ سابق ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی منظور قادر کاکا کا قریبی ساتھی ہے، جوکہ ضلع ملیر اور ضلع ویسٹ کے علاقوں میں کئی رہائشی اسکیموں کے علاوہ سرکاری زمینوں پر پلاٹنگ کے حوالے سے 10 برس سے سرگرم تھا اور اس کے تین اکائونٹس سے منی لاندرنگ کیس میں شامل بینک اکائونٹس میں بھاری رقوم ٹرانسفر ہوئیں، جو مختلف کمپنیوں اور سرکاری ٹھیکے لینے والوں کے علاوہ سیاسی اور سرکاری شخصیات کے اکائونٹس تک پہنچتی رہیں جن میں اومنی گروپ، انور مجید، زین ملک، ڈی بلوچ کمپنی سمیت دیگر نام شامل ہیں۔
ذرائع کے بقول صورتحال ہے کہ جس صوبے کے سرکل میں مقدمہ درج ہو، اسی صوبے کے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر کو اس پر ہونے والی تحقیقات اور پیش رفت کے معاملات سے لاعلم رکھا جائے۔ اس وقت جے آئی ٹی کا سیکریٹریٹ گلستان جوہر میں ایف آئی اے کی بلڈنگ میں قائم ہے، جہاں پر 10 ایف آئی افسران کراچی سے اور 10 ایف آئی اے افسران پنجاب سے اس کیس پر اور سامنے آنے والے اکائونٹس پر کام کررہے ہیں۔ تاہم یہ تمام افسران جن میں سب انسپکٹر سے لے کر ڈپٹی ڈائریکٹر سطح تک کے افسران شامل ہیں، تمام ایف آئی اے کے ہی بھرتی شدہ ہیں۔ ذرائع کے بقول منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں شامل تمام افسران کو دوران تحقیقات دفتر میں اپنے ساتھ موبائل فون رکھنے پر پابندی عائد ہے۔ جے آئی ٹی سیکریٹریٹ میں کسی بھی صحافی یا غیر متعلقہ فرد کا داخلہ ممنوع ہے، جہاں کراچی کے 10 افسران کے علاوہ پنجاب کے 10 افسران بھی اس تحقیقات میں شامل ہیں اور وہ بھی کراچی میں موجود ہیںِ جن میں جمیل میئو اور خالد انیس سر فہرست ہیں۔
ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے احکامات پر سندھ پولیس کے ایک سینئر افسر ایس ایس پی طارق دھاریجو کے ذریعہ انور مجید کے بیٹے اے جی مجید سے ایف آئی اے کے دفتر میں حراست کے دوران طویل ملاقات کرائی گئی جس میں ان سے مختلف شخصیات سے فون پر بات بھی کرائی گئی۔ یہ ملاقات سندھ پولیس سے ایف آئی اے میں آنے والے دو سینئر افسران ایس ایس پی عبدالسلام شیخ اور ایس ایس پی عرب مہر کے ذریعے ہوئی جس کیلئے اے جی مجید کو خصوصی طور پر ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل سے نکال کر ایک رات کیلئے ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم سرکل کے دفتر میں منتقل کیا گیا۔ ایس ایس پی عرب مہر اس وقت ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ہیں، جبکہ ایس ایس پی عبدالسلام شیخ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل ہیں، جو ملاقا ت کرانے کے وقت قائم مقام ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ بھی تھے، کیونکہ ڈائریکٹر ایف آئی اے منیر شیخ اس وقت پیچیدہ صورتحال کے پیش نظرچھٹیوں پر چلے گئے تھے، جس کیلئے انہوں نے کورس کا سہارا لیا تھا، کیونکہ ایک جانب سپریم کورٹ اور ڈی جی ایف آئی اے کا دبائو تھا اور دوسری جانب سندھ حکومت کی اعلیٰ شخصیات کی ناراضی کا اندیشہ تھا۔ ذرائع نے کہا کہ اس کیلئے ایس ایس پی طارق دھاریجو خصوصی طور پر خفیہ انداز میں ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم سرکل پہنچے اور انہوں نے ایس ایس پی عرب مہر کے کمرے میں اے جی مجید سے ملاقات کی۔ اس ضمن میں جب موقف کے لئے عرب مہر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے پہلے تو فون ریسیو نہیں کیا، لیکن دوسری بار تعارف سنتے ہی فون بند کردیا۔ جبکہ ایس ایس پی طارق دھاریجو نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ یہ ملاقات اتفاقیہ تھی، کیونکہ وہ اپنے دوست عرب مہر سے ملنے گئے تھے اور اسی وقت اے جی مجید بھی سامنے آگئے تھے۔ تاہم انہوں نے اے جی مجید کی کسی سے بھی فون پر بات کرانے کی تردید کی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ملاقات کے معاملے پر ایف آئی اے کے اعلیٰ افسران نے جو ایکشن لیا تھا وہ ماتحت افسران تک ہی محدود رہا اور ایف آئی اے کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر رحمت اللہ ڈومکی کو اس کا ذمے دار قرار دے کر ان کا تبادلہ کردیا گیا۔ لیکن اصل کرداروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا بلکہ ایک میٹنگ میں ڈی جی ایف آئی اے نے صرف ان افسران کی سرزنش کی، تاہم بعد ازاں اس کا حل یہ نکالا گیا کہ سندھ پولیس سے آنے والے افسران کو منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات سے علیحدہ کردیا گیا۔