معارف و مسائل
قاعدے کے مطابق لفظ ’’عَلَّمَ‘‘ کے دو مفعول ہوتے ہیں، ایک وہ علم جو سکھایا جائے، دوسرے وہ شخص جس کو سکھایا جائے، یہاں آیت میں وہ چیز تو بتلا دی گئی جو سکھائی گئی ہے، یعنی قرآ ، دوسرا مفعول یعنی قرآن جس کو سکھایا گیا اس کا ذکر نہیں کیا، بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ بلاواسطہ حق تعالیٰ نے جن کو تعلیم دی، یعنی رسول اقدسؐ وہی مراد ہیں، پھر آپؐ کے واسطے سے ساری مخلوقات اس میں داخل ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تنزیل قرآن کا مقصد ساری ہی خلق خدا کو راہ ہدایت دکھانا اور سب ہی کو اخلاق و اعمال صالحہ کا سکھانا ہے، اس لئے کسی خاص مفعول کی تخصیص نہیں کی گئی، دوسرا مفعول ذکر نہ کرنے سے اشارہ اسی عموم کی طرف ہے۔
خَلَقَ الانسَانَ… انسان کی تخلیق خود حق تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے اور ترتیب طبعی کے اعتبار سے وہی سب سے مقدم ہے، یہاں تک کہ تعلیم قرآن جس کو پہلے ذکر کیا گیا ہے وہ بھی ظاہر ہے کہ تخلیق کے بعد ہی ہو سکتی ہے، مگر قرآن حکیم نے نعمت تعلیم قرآن کو مقدم اور تخلیق انسان کو موخر کر کے اس طرف اشارہ کر دیا کہ تخلیق انسان کا اصل مقصد ہی تعلیم قرآن اور اس کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا ہے، جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہے: یعنی ’’میں نے جن وانس کو صرف اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کیا کریں‘‘ اور ظاہر ہے کہ عبادت بغیر تعلیم الٰہی کے نہیں ہو سکتی، اسی کا ذریعہ قرآن ہے، اس لئے اس حیثیت میں تعلیم قرآن تخلیق انسان سے مقدم ہوگئی۔
تخلیق انسان کے بعد جو نعمتیں انسان کو عطا ہوئیں، وہ بیشمار ہیں ، ان میں خاص طور پر تعلیم بیان کو یہاں ذکر فرمانے کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جن نعمتوں کا تعلق انسان کے نشوونما اور وجود و بقا سے ہے۔ مثلاً کھانا پینا، سردی گرمی سے بچنے کے سامان ، رہنے بسنے کا انتظام وغیرہ ان نعمتوں میں تو ہر جان دار انسان اور حیوان شریک ہے، وہ نعمتیں جو انسان کے ساتھ مخصوص ہیں، ان میں سے پہلے تو تعلیم قرآن کا ذکر فرمایا اس کے بعد تعلیم بیان کا ، کیونکہ تعلیم قرآن کا افادہ استفادہ بیان پر موقوف ہے۔
اور بیان میں زبانی بیان بھی داخل ہے ، تحریر و خط اور افہام و تفہیم کے جتنے ذرائع حق تعالیٰ نے پیدا فرمائے ہیں وہ بیان کے مفہوم میں شامل ہیں اور پھر مختلف خطوں ، مختلف قوموں کی مختلف زبانیں اور ان کے محاورات سب اسی تعلیم بیان کے اجزاء ہیں، جو وَعَلَّمَ اٰدَمَ … الخ کی عملی تفسیر ہے۔ (جاری ہے)