ضیاءالرحمن چترالی
ڈاکٹر الفریڈ ہوف مین کا تعلق جرمنی سے ہے۔ وہ مختلف ممالک میں سفارت کار کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ جبکہ وہ مغربی ممالک کی عسکری تنظیم ’’نیٹو‘‘ کے اعلیٰ عہدے پر بھی فائز رہے ہیں۔ ڈاکٹر الفریڈ الجزائر میں خدمات سر انجام دینے کے دوران اسلام سے متعارف ہوئے۔ کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے دین حق کو قبول کرنے کا اعلان کیا۔ پھر وہ اسلام کی تبلیغ و ترویج میں مصروف ہوگئے اور ان کی کئی کتابیں منظرعام پر آکر قارئین داد وصول کرچکی ہیں۔ اپنے قبول اسلام کی داستان وہ خود بیان کرتے ہیں:
’’میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ اس کا جواب دینا بہت مشکل ہے۔ ویسے اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی توفیق پر منحصر ہے۔ یہ سوال ایسا ہے جیسے کسی شوہر سے پوچھا جائے کہ وہ اپنی بیوی سے کیوں محبت کرتا ہے یا اسی طرح بیوی سے دریافت کیا جائے کہ وہ اپنے شوہر سے کیوں محبت کرتی ہے، تو اس کا کوئی منطقی جواب نہیں دیا جا سکتا۔ پھر بھی میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے قبول اسلام کے بہت سارے اسباب و محرکات تھے۔
میں 1930ء میں جرمنی کے ایک راسخ العقیدہ کیتھولک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس وقت جرمنی میں نازی حکومت تھی۔ دوسری عالمی جنگ اپنے شباب پر تھی۔ جرمنی برطانیہ اور امریکہ وغیرہ سے برسر پیکار تھا اور وہاں بی بی سی سننے کی سزا موت تھی۔ میں طلبہ کی ایک خفیہ عیسائی تنظیم Jesuits سے وابستہ ہو گیا۔ اس کے ممبران میں تقریباً 80 فیصد طلبہ ایسے تھے جو اپنی کلاس میں نمایاں تھے۔ ہم تنظیم کے پلیٹ فارم سے خفیہ عیسائیت کی تبلیغ کر رہے تھے۔ جب ہٹلر کی فوجیں جنگ میں ناکام ہوئیں اور امریکی فوجیں ہمارے شہر میں داخل ہوئیں تو لگتا تھا کہ موت ہمارے ساتھ ساتھ ہے، اس کی وجہ سے میرے اس یقین میں اضافہ ہوا کہ موت کبھی بھی آ سکتی ہے۔
ایک کیتھولک راسخ العقیدہ گھرانے میں پیدائش کے باوجود عیسائی عقائد میرے حلق سے نیچے نہیں اتر رہے تھے۔ تین خدائوں کا عقیدہ، مریمؑ کا خدا کی ماں ہونا، پیدائشی گناہ گار ہونا یا آدمؑ نے جو گناہ کیا، اس کا بوجھ ہر انسان کو اٹھانا اور انسانوں کو گناہوں سے نجات دلانے کے لیے عیسیٰؑ کا صلیب پر چڑھنا، یہ سب عقائد میری سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ ان کے مقابلے میں مجھے اسلامی عقائد اور تعلیمات مدلل اور معقول معلوم ہوتے تھے۔
جب میں اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے ان کے بارے میں دریافت کرتا تو ان کا جواب یہ ہوتا کہ یہ سب راز ہیں، بس ان پر عقیدہ رکھنا چاہیے۔ میں ان سے کہتا تھا کہ میں ان پر یقین کرنے کے لیے تیار ہوں، لیکن وہ میری سمجھ میں تو آئیں۔ میں سوچتا تھا کہ کیا خدا تعالیٰ کے پاس انسانیت کو راہ راست پر لانے کے لیے اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں تھا کہ اس نے ایک بچے کو جنم دیا، پھر اسے ذلت کے ساتھ صلیب پر چڑھا دیا، اس طرح سے اس نے انسانوں کی معافی کا انتظام کیا۔ ایک اور بات یہ ہے کہ عیسائیت اس کا دعویٰ کرتی ہے کہ وہ محبت پر مبنی ہے، جبکہ میں نے دیکھا کہ اکثر عیسائیوں کا طرز عمل اس سے میل نہیں کھاتا۔
جرمنی میں ابتدائی تعلیم کے بعد میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ چلا گیا اور وہاں سماجیات کا مطالعہ کیا۔ امریکہ میں قیام کے دوران میں اکثر شام کو سڑکوں پر دوڑتی ہوئی کاروں سے لفٹ لیتا اور مختلف مقامات کی سیر کرتا تھا۔ (جاری ہے)