یَا رَبِِّ صَلِّ وَ سَلِّمْ دَآئِما اَبَداً
عَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلّھِم
نزہۃ المجالس میں ایک عجیب قصہ لکھا ہے کہ رات اور دن کا آپس میں مناظرہ ہوا کہ ہم میں سے کون سا افضل ہے۔ دن نے اپنی افضلیت کو ثابت کرنے کیلئے کہا کہ میرے اندر تین فرض نمازیں ہیں اور تیرے میں دو اور مجھ میں جمعہ کے دن ایک ساعت اجابت جس میں آدمی جو مانگے وہ ملتا ہے (یہ صحیح اور مشہور حدیث ہے) اور میرے اندر رمضان المبارک کے روزے رکھے جاتے ہیں، تو لوگوں کیلئے سونے اور غفلت کا ذریعہ ہے اور میرے ساتھ تیقظ اور چوکناپن ہے اور مجھ میں حرکت ہے اور حرکت میں برکت ہے اور میرے میں آفتاب نکلتا ہے جو ساری دنیا کو روشن کر دیتا ہے۔
رات نے دن سے کہا کہ اگر تو اپنے آفتاب پر فخر کرتا ہے تو میرے آفتاب والوں کے قلوب ہیں، اہل تہجد اور خدا کی حکمتوں میں غور کرنے والوں کے قلوب ہیں۔ تو ان عاشقوں کی شراب تک کہاں پہنچ سکتا ہے، جو خلوت کے وقت میں میرے ساتھ ہوتے ہیں۔
تو معراج کی رات کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے۔ تو خدا جل شانہ کے پاک ارشاد کا کیا جواب دے گا جو اس نے اپنے رسولؐ سے فرمایا کہ رات کی تہجد پڑھئے جو بطور نافلہ کے ہے۔ آپؐ کے لئے خدا نے مجھے تجھ سے پہلے پیدا کیا۔ میرے اندر لیلۃ القدر ہے، جس میں مالک کی نہ معلوم کیا کیا عطائیں ہوتی ہیں۔
خدا پاک کا ارشاد ہے کہ وہ ہر رات کے آخری حصہ میں یوں ارشاد فرماتا ہے کوئی ہے مانگنے والا جس کو دوں، کوئی ہے توبہ کرنے والا جس کی توبہ قبول کروں۔ کیا تجھے خدا کے اپنے حبیبؐ سے اس پاک ارشاد کی خبر نہیں کہ ’’رات کو قیام کیا کریں‘‘ کیا تجھے خدا کے اس ارشاد کی خبر نہیں کہ جس میں اس نے ارشاد فرمایا کہ ’’پاک ہے وہ ذات جو رات کو لے گیا اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک‘‘
یقیناً حضوراقدس ؐ کے معجزات میں معراج کا قصہ بھی ایک بڑی اہمیت اور خصوصیت رکھتا ہے۔ قاضی عیاضؒ شفاء میں فرماتے ہیں کہ حضور اقدسؐ کے فضائل میں معراج کی کرامت بہت ہی اہمیت رکھتی ہے اور بہت ہی فضائل کو شامل ہے۔ حق جل شانہ سے سرگوشی، رب تعالیٰ شانہ کی زیارت، انبیائے کرام کی امامت اور سدرۃ المنتہیٰ تک تشریف آوری، اس جگہ حق تعالیٰ شانہٗ کی بڑی بڑی نشانیوں کی سیر، یہ معراج کا قصہ حضور اقدسؐ کی خصوصیات میں سے ہے اور اس قصہ میں جتنے درجات رفیعہ جن پر قرآن پاک اور احادیث صحیحہ میں روشنی ڈالی گئی ہے، یہ سب حضور اقدسؐ کی خصوصیات ہیں۔
اس قصہ کو صاحب قصیدہ بردہ نے مختصر لکھا ہے اور جس کو حضرت تھانویؒ نے مع ترجمہ کے نشر الطیب میں ذکر کیا ہے۔ اسی سے یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
(جاری ہے)