قسط نمبر: 62
کشتی میں سب سے پہلا کام اسدی صاحب نے یہ کیا کہ صاف پانی سے میرے ہاتھ دھلوائے۔ پھر ٹھنڈے پانی اور صاف پانی کے گلاس عنایت کیے تو میری جان میں جان آئی۔ اس کے بعد فوراً ہی دسترخوان بچھا دیا گیا اور اس پر دیسی گھی میں بنے ہوئے پراٹھے جو اس وقت تک گرم تھے اور آلو کی سبزی لگا دی گئی۔ مجھے بھوک تو بڑی سخت لگی تھی اور کھانا بھی خاصی وافر مقدار میں تھا، مگر پھر بھی میں نے ہاتھ روک کر کھایا کہ مبادا بچے ہوئے کھانے پر ڈاکٹر اسدی کے اٹینڈنٹ کی نظر ہو اور وہ اسے بندر عباس میں اپنے گھر لے جانے کا خواہشمند ہو۔ جب سب لوگوں نے دستر خوان سے ہاتھ کھینچ لیے تو ڈاکٹر اسدی نے مجھ سے کہا کہ آپ نے پہاڑوں پر دن میں کام بھی کیا ہے، مگر کھانا بہت تھوڑا کھایا ہے، کچھ اور کھایئے۔ مگر میں نے منافقت سے کام لے کر کہہ دیا کہ میں نے سیر ہو کر کھایا ہے اور یہ کہ کھانا بہت ہی مزیدار تھا۔ اس کے بعد ڈاکٹر اسدی نے اپنے اٹینڈینٹ کو دسترخوان اٹھانے کا اشارہ کیا۔ اس نے تمام بچا ہوا کھانا یکجا کرنے کے بعد اس کاغذ پر رکھا کہ جس میں لپیٹ کر وہ لایا گیا تھا اور پھر آن واحد میں چلتی ہوئی کشتی سے اسے سمندر میں پھینک دیا۔ اب میں نے دل ہی دل میں اپنے منافقت پر لعنت بھیجی کہ کیوں غلط بیانی کی اور کیوں نہ پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا۔ بھوکا بھی رہا اور کھانا بھی ضائع ہوگیا۔ دراصل یہ تکلف، بناوٹ اور منافقت کی بیماریاں پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں میں کچھ زیادہ ہی سرائیت کر گئی ہیں۔ دیگر اسلامی ممالک کے لوگ ان سے بڑی حد تک بچے ہوئے ہیں۔
واپسی کے سفر میں جب ہماری کشتی ہرمز جزیرے کے سامنے سے گزر رہی تھی تو میں نے محسوس کیا کہ یہ مقام پورے ہرمز جزیرے کی نسبتاً قریب سے تصویر بنانے کیلئے بہترین ہے۔ سورج کی روشنی کی سمت بھی سازگار تھی، اس لیے میں نے ڈاکٹر اسدی سے درخواست کی کہ اگر وہ کشتی کو چند لمحے کیلئے رکوا دیں تو یہ مجھ پر بڑی عنایت ہوگی۔ انہوں نے فوراً ہی کشتی رکوا دی اور میں نے ایک فوٹو لے لیا۔ کچھ دور جاکر ایک مرتبہ پھر میں نے تصویر لینے کیلئے کشتی رکوائی اور پھر ہم بندر عباس کے نزدیک پہنچ چکے تھے۔ اب اسدی صاحب مجھ سے یوں مخاطب ہوئے کہ کیونکہ ایرانی حکومت کے قواعد کی رو سے پیشگی کلیئرنس کے بغیر ہم کسی بھی خارجی کو ڈپارٹمنٹ کی حدود میں نہیں لے جا سکتے، اس لیے میں آپ کو بندر عباس کے نواح میں ایسی جگہ اتار دوں گا جہاں سے آپ کو بندر عباس کیلئے پبلک بس بہ آسانی مل جائے گی۔ میں نے عرض کیا کہ جناب یہ بالکل ٹھیک ہے اور یہ بھی مجھ پر ایک بڑا احسان ہے۔ مجھے ڈاکٹر اسدی صاحب نے جہاں کشتی سے اتارا، وہ بندر عباس کی ایک نواحی آبادی تھی۔ میں اس ویران سے کنارے پر اتر کر یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ آخر ڈاکٹر اسدی نے مجھے یہاں اس ویران جگہ پر کیوں اتارا اور اپنے دفتر تک کیوں نہ لے گئے۔ ان کا دفتر یا محکمہ مچھلیوں کی افزائش اور ان کے علاج معالجے کا محکمہ تھا نہ کہ جوہری توانائی کی ترقیات کا کہ جہاں کوئی خارجی اور وہ بھی پاکستانی بغیر پیشگی کلیئرنس محکمے کی عمارت کے جنوبی دروازے سے داخل ہو کر اس کے شمالی دروازے سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔ سوچ سوچ کر میں اسی نتیجے پر پہنچا کہ میرا راستے میں کشتی رکوا کر ہرمز جزیرے کی تصاویر اتارنا اغلباً ان کے کیلئے تشویش کا باعث بن گیا اور ایک مرتبہ پھر میں ان کے نزدیک مشتبہ ہوگیا کہ ہرمز پر بھی ایرانی بحریہ اور ایرانی فوج کی تنصیبات موجود تھیں۔ مگر وہ تصاویر جو میں نے اتاری تھیں، وہ تو کوئی بھی شخص بندر عباس سے قشم جاتے ہوئے یا قشم جزیرے سے بندر عباس آتے ہوئے کشتی میں بیٹھے بیٹھے اپنے موبائل فون کے کیمرے سے بھی اتار سکتا تھا۔ بہرحال چونکہ تصویریں اتارنے کے معاملے میں پاکستان میں بھی حکومتی ادارے خاصے فتنہ پرور واقع ہوئے ہیں، اس لیے مجھے اسدی صاحب سے اس سلسلے میں کوئی شکایت نہ ہونی چاہیے۔بہرحال میں اس ویران علاقے میں اتر کر سامنے آبادی کی طرف چل دیا اور جلد ہی اس آبادی کی تنگ گلیوں کی بھول بھلیوں میں چکر لگا رہا تھا اور آخرکار بچوں، بوڑھوں اور خواتین سے پوچھتا پاچھتا شاہراہ پہنچ ہی گیا جو سیدھی بندر عباس جاتی تھی۔ مجھے بس اسٹینڈ (اتو بس ایستگاہ) پر زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا کہ بندر عباس جانے والی بس آگئی اور میں اس میں سوار ہوگیا۔ جلد ہی کنڈکٹر صاحب میرے سر پر آپہنچے اور فرمایا کہ ٹکٹ؟ میں نے کہا کہ جنب داد گستری تک کا ٹکٹ دے دیجئے؟ وہ صاحب بولے کہ جناب جنب داد گستری؟ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ یہ تو بہت بڑے علاقے کا حوالہ ہے۔ مجھے آپ ٹھیک وہ جگہ بتائیں جہاں آپ کو اترنا ہے؟ میں نے دماغ پرزور دیا تو یاد آیا کہ ہوٹل کی مالکہ آنسہ احمدے نے مجھے بتایا تھا کہ اگر کسی بس یا ٹیکسی سے آنا ہو تو مہمان پذیر کے پتے میں بطرف ساحل لگانا نہ بھولیے۔ میں نے جیسے ہی بطرف ’ساحل‘ کے الفاظ اپنے منہ سے نکالے تو کنڈکٹر صاحب مسکرانے لگے اور فرمایا کہ اب آپ نے صحیح پتہ بتایا ہے۔ اور پھر اس شریف آدمی نے مجھے میرے مہمان خانے کے نزدیک ہی شاہراہ پر اتار دیا۔ اور وہاں سے خراماں خراماں چلتا ہوا میں اپنے مہمان پذیر بلوار پہنچ گیا۔
یہاں ایک انتہائی خوشگوار حیرت میری منتظر تھی۔ ہوا یہ کہ صبح جب میں مہمان پذیر سے لارک جانے کیلئے رخصت ہو رہا تھا تو میں دیکھا کہ میرے کمرے سے ملحق داہنے کمرے کو آراستہ کرنے کیلئے کئی لوگ کام پر بڑی مستعدی سے لگے ہوئے ہیں۔ کمرے کا پرانا قالین باہر نکالا جا چکا تھا اور اس کی جگہ نیا سرخ رنگ کا قالین آچکا تھا۔ اسی طرح پردے اور مسہریوں کی چادریں بھی بدلی جا رہی تھیں۔ یہ دیکھ کر میں نے خیال کیا کہ آج شاید کوئی بہت ہی اہم مہمان آنے والا ہے جو یہ تیاریاں ہو رہی ہیں۔ مگر اب لارک سے واپسی پر جب میں استقبالیے پر اپنے کمرے کی چابی لینے پہنچا تو اس وقت وہاں ڈیوٹی پر موجود مہتمم استقبالیہ نے مجھے ایک دوسری چابی دیتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے حیرت زدہ کر دیا کہ آج سے آپ کا کمرہ آپ کے پہلے کمرہ نمبر 8 کے برابر والا ہوگا۔ جس کی چابی آپ کو دی جا رہی ہے اور یہ کہ آپ کی غیر موجودگی میں ہم نے آپ کا تمام سامان پوری احتیاط سے آپ کے نئے کمرے میں منتقل کر دیا ہے۔
بہرحال میں اپنے نئے اور وی آئی پی (VIP) کمرے میں کہ جس کی ہر چیز سرخ پوش تھی، کچھ خوش کچھ پریشان اور کچھ حیرت زدگی کے عالم میں داخل ہوا اور پھر جلد جلد تیار ہوکر اور اپنی ہرمز کی معجزاتی سبز بوتل سے جی بھر کر پانی پینے کے بعد سیدھا ساحل کی تفریح گاہ پر چلا گیا کہ بندر عباس میں اپنی آخری شام اس خوبصورت اور پُر فضا مقام پر گزارنا چاہتا تھا۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ بندر عباس کی دلکش شامیں اتنا زمانہ گزر جانے کے باوجود مجھے آج بھی یاد آتی ہیں۔
بندر عباس کے ساحل کی شاندار اور پُرلطف تفریح گاہ پر اپنی آخری شام گزارنے کے بعد اور وہیں ایک اسنیک بار سے اپنے پیٹ کی گرمی کو ٹھنڈا کرنے کے بعد مہمان پذیر بلوار واپس لوٹا۔ مغرب اور عشا کی نمازیں ساتھ پڑھیں اور پھر جلد ہی اپنے نئے بستر پر دراز ہوگیا کہ صبح مجھے کرمان کا سفر درپیش تھا۔ مہمان پذیر والوں کو میں نے سر شام ہی بتا دیا تھا کہ دوسرے دن میری روانگی ہے۔ (جاری ہے)