قسط نمبر137
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
افتخار صاحب نے گرم جوشی سے میرا خیر مقدم کیا۔ تاہم وہ خاصے سنجیدہ دکھائی دے رہے تھے۔ ’’چھوٹے بھائی، شارلیٹ جھیل کے کنارے گزشتہ ملاقات میں تمہاری اداسی اور مایوسی نے مجھے اتنا دکھی اور مضطرب کیا تھا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ حکام بالا کو قائل کرنے کے لئے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔ اس حوالے سے میں نے خطرہ مول لیتے ہوئے کسی نہ کسی طرح اعلیٰ ترین حکام بالا تک اب تک کی حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں آبدوز کی ہنگامی ضرورت کا پیغام پہنچایا۔ یہ ایک قطعی غیر رسمی رابطہ تھا۔ خوش قسمتی سے پیغام وصول کرنے والوں نے ساری صورتِ حال بلا تاخیر ایڈمرل افضل رحمان خان تک بھی پہنچا دی‘‘۔
میں نے ان سے کچھ سوال کرنے کے بجائے پُر امید نظروں سے ان کی طرف دیکھنے پر اکتفا کیا۔ انہوں نے بات آگے بڑھائی۔ ’’ایڈمرل صاحب نے بھی ان معلومات کی اہمیت اور اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت کا اعتراف کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکا سے کم از کم ایک جدید آبدوز بہت جلد موصول ہونے کے حوالے سے بے حد پُر امید ہیں، اور یہ اطلاع موصول ہونے کے بعد وہ اس آبدوز کو جلد از جلد حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششیں مزید تیز کر رہے ہیں۔ اب دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ سال کے آخری مہینے سے پہلے وہ آبدوز ہمیں مل جائے‘‘۔
افتخار صاحب نے جوکچھ بتایا، اسے میں دل کے بہلانے کی ایک کوشش سے زیادہ کیا سمجھتا؟۔ انہیں خود بھی اس کا اندازہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔ ’’اور یار تم نے پٹیالا میں جو کچھ کرنے کے ارادے بتائے ہیں، وہ ہیں تو قابلِ عمل، لیکن خطرناک بھی ہیں۔ جبکہ تمہیں اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کافی رقم کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔ لہٰذا تم یہ اپنے پاس رکھ لو‘‘۔ مجھے ان کے ہاتھ میں بڑے نوٹوں کی ایک موٹی سی گڈی نظر آئی۔ اس مہم کے اخراجات کے نام پر مجھے وہ بھاری رقم قبول کرنا پڑی۔
اسلم نے انہیں پٹیالا میں منائے جانے والے سکھوں کے مذہبی تہوار کے بارے میں بتایا تو حسبِ توقع انہوں نے بھی اسے عمدہ موقع قرار دیا۔ البتہ بطور سکھ میری شناخت کے حوالے سے تذبذب کا اظہار کیا اور بہت سے سوالات کرنے کے بعد کچھ مطمئن ہوئے۔ تاہم انہوں نے مجھے حد درجہ احتیاط سے کام لینے کی ہدایت کی۔
اچانک انہوں نے وہ سوال پوچھ لیا، جس نے مجھے مسلسل بے کل کر رکھا تھا۔ ’’بھیا، تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو، اللہ کرے اس میں تمہیں مکمل کامیابی مل جائے۔ لیکن یہ تو بتاؤ کہ ان بچیوں کو آزاد کرانے کے بعد تم انہیں کہاں لے کر جاؤ گے؟ کوئی محفوظ پناہ گاہ ہے تمہارے ذہن میں؟‘‘۔
میں نے مردہ لہجے میں کہا۔ ’’جناب فی الحال تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ شاید اللہ تعالیٰ کوئی راہ سجھادے‘‘۔
افتخار صاحب نے میری بات غور سے سنی اور پھر کچھ سوچ کر کہا۔ ’’یہ واقعی پے چیدہ مسئلہ ہے۔ میرے ذہن میں ایک تجویز ہے۔ لیکن اس پر عمل اسی وقت ممکن ہے جب ان بچیوں کے اصل وطن کا پتا لگ سکے۔ اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تمہارے اس کشمیری دوست سے رابطے کی کوئی صورت ہے، جس کے ساتھ تم دلّی اور پنجاب میں معرکے مارتے رہے ہو؟‘‘۔
میں نے چونک کر کہا۔ ’’ظہیر شیخ؟ اس نے مالیر کوٹلا کے ایک مسافر خانے کے مالک کے توسط سے رابطے کا کہا تھا۔ لیکن یقین سے کہنا ممکن ہے کہ اسے کتنے عرصے بعد وہاں جانے کا موقع ملتا ہوگا۔ وہ بے چارہ تو خود ایک مفرور کی زندگی گزار رہا ہے۔ آخری بار وہ اسلحے کی کھیپ کشتواڑ لے جانے کے لیے روانہ ہوا تھا۔ اللہ جانے وہ اپنی منزل پر پہنچ پایا ہوگا یا نہیں‘‘۔
افتخار صاحب نے کہا۔ ’’پھر بھی کچھ نہ کچھ امید تو ہے۔ ایسا کریں آپ پٹیالا جاکر پہلے اپنے لیے کوئی ٹھکانا ڈھونڈیں۔ اس کے بعد مالیر کوٹلا جاکر مسافر خانے کے مالک کو پیغام دیں کہ اگر ظہیر ان سے رابطہ کرے تو اسے فوراً پٹیالا میں آپ سے رابطہ کرنے کو کہیں۔ اس کے بعد پٹیالا واپس آکر اپنی مہم پر لگ جائیں۔ اگر ظہیر شیخ سے تمہارا رابطہ ہو جائے تو ان بچیوں کو ان کے بچے کھچے اہل خانہ تک پہنچانے کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے‘‘۔
وہ اس حوالے سے مجھے جزئیات سمجھاتے رہے۔ بالآخر میں نے ان کی تجویز پر عمل کرنے کی ہامی بھرلی۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ کوئی ہنگامی صورتِ حال درپیش ہونے پر میں دلّی جاکر اختر خان صاحب سے رابطہ کر سکتا ہوں۔ میں نے ان کے مشورے پر عمل کرنے کا وعدہ کیا۔ ان کی ہدایت پر اسلم نے ہمیں ایک بار پھر جامع مسجد کے عقبی دروازے پر لے جا کر اتار دیا۔ ہم دونوں انجان بن کر مسجد میں داخل ہوئے اور جمعہ کی نماز ادا کر کے اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ گئے۔
جس روز مجھے پنجاب میل کے ذریعے روانہ ہونا تھا، اسلم صبح ٹھیک چھ بجے میرے گھر کے دروازے پر موجود تھا۔ ’’سب بوریا بستر سمیٹ رکھا ہے ناں بھیا؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’اتنی صبح سویرے آنے کی زحمت کیوں کی بھائی؟ ٹرین روانہ ہونے کا وقت پونے آٹھ بجے ہے اور بمبئی سینٹرل ریلوے اسٹیشن یہاں سے بمشکل ڈیڑھ پونے دو میل کے فاصلے پر ہے!‘‘۔
اس نے عجیب پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’تمہیں ریلوے اسٹیشن پہنچانے سے پہلے ناشتا بھی تو کرانا ہے بھیا، کیا بھوکے ہمارے شہر سے جاؤ گے؟ اسی بہانے کچھ وقت تمہارے ساتھ گزارنے کا موقع مل جائے گا۔ خدا جانے زندگی میں کبھی دوبارہ ملاقات ہو سکے گی یا نہیں! سچی بتاؤں، اس مختصر سی مدت میں تم واقعی چھوٹے بھائی جیسے لگنے لگے ہو‘‘۔ اس کے لہجے میں اتنا پیار اور خلوص تھا کہ بے ساختہ میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ میں نے اسے سینے سے جکڑتے ہوئے بتایا کہ میرا کوئی بڑا بھائی نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو شاید اسی جیسا ہوتا۔ (جاری ہے)