امانت و دیانت کا پیکر نوجوان

کاتب حسن بن محمدؒ کہتے ہیں:
’’میں ارجان میں رہا کرتا تھا، ان دنوں میرا ایک تاجر پڑوسی تھا، جو کہ جعفر بن محمد کے نام جانا جاتا تھا۔ میں اس سے گھلا ملا رہا کرتا تھا اور میرا اس سے گہرا تعلق تھا۔ اس نے ایک دن مجھے بتایا:
’’میں ہر سال حج کیا کرتا تھا اور حضرت حسینؓ کی اولاد سے ایک غریب اور گمنام آدمی کے پاس آیا کرتا تھا۔ میں اس کے ساتھ لطف کا معاملہ کیا کرتا تھا اور اس کو ڈھونڈا کرتا تھا۔
ایک سال میں حج پر نہ سکا، لیکن جب میں اگلے سال آیا تو میں اسے بہت مال دار پایا، میں بڑا خوش ہوا اور اس سے اس کے مال دار ہونے کا سبب معلوم کیا۔
اس نے کہا: ’’وقت کے ساتھ میرے پاس کچھ درہم جمع ہوگئے۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ میں شادی کرلوں، کیوں کہ میں کنوارہ ہوں جیسا کہ تم جانتے ہو۔ پھر میں نے کہا کہ مجھے حج پرجانا چاہیے، تاکہ وہاں پر میں رب تعالیٰ سے دعا کروں کہ وہ اس کے بعد میرے لیے شادی کے اسباب آسان کردے تو میرا حج بھی ہو جائے گا اور شادی بھی ہو جائے گی۔ چناں چہ میں مکہ مکرمہ چلا گیا۔
حرم شریف پہنچ کر میں نے اپنے زاد سفر کو حفاظت سے رکھ دیا۔ میرے پاس گھر میں کوئی صندوق وغیرہ نہ تھا تو میں نے گھر کا دروازہ بند کر دیا اور منیٰ کی طرف نکل پڑا۔
جب میں منیٰ سے لوٹ کر گھر آیا تو میں نے گھر میں زاد سفر کو نہ پایا، میں حیران رہ گیا اور مجھے اتنی تکلیف ہوئی، اس سے پہلے کبھی اتنی تکلیف نہ ہوئی تھی۔
پھر میں نے کہا: ’’یہ تو ثواب کو بڑھانے والا حادثہ ہے، اس میں غم کرنے کی کیا بات ہے‘‘ اور خدا عزوجل کے فیصلے پر سر جھکا دیا۔ میں گھر میں آرام سے بیٹھ گیا اور میرے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں تھی۔ میرا دل کچھ مانگنے کی اجازت بھی نہ دیتا تھا، سو میں اپنی جگہ تین روز تک ایسی حالت میں رہا کہ میں نے کوئی کھانے کی چیز چکھی تک نہیں۔ پھر جب چوتھے دن بھی کمزوری کی حالت میں صبح ہوئی تو مجھے اپنے مرنے کا اندیشہ ہوا اور مجھے اپنے نانا رسول اقدسؐ کا قول یاد آیا کہ زم زم کا پانی جس مراد سے پیا جائے وہی مراد حق تعالیٰ پوری کردیتے ہیں۔ سو میں اسے پینے کے لیے نکلا۔ چناں چہ میں نے اس سے پیا اور باب ابراہیمؑ کی طرف لوٹا کہ اس پر آرام کروں۔
میں چل ہی رہا تھا کہ اچانک میرا پاؤں راستے میں کسی چیز سے ٹکرایا، جس کی وجہ سے میری انگلی میں تکلیف ہوئی۔ میں نے اپنا ہاتھ پیر کی طرف بڑھایا، تاکہ میں اس کو دیکھوں کہ زیادہ چوٹ تو نہیں لگی۔ تو میرا ہاتھ ایک لال رنگ کے چمڑے کی تھیلی پر پڑا تو میں نے اس کو اٹھا لیا۔
اٹھانے کے بعد میں نے سوچا کہ گری ہوئی چیز استعمال کرنا جب تک کہ اس کی پہچان نہ کرائی جائے حرام ہے۔
لیکن پھر میں نے کہا: ’’اگر اب میں اس کو چھوڑ دوں گا تو میں اس کو ضائع کرنے والا ہوں گا۔‘‘ اور اب مجھ پر لازم ہوگیا ہے کہ میں اس کا اعلان کروں۔ شاید اس کا مالک مل جائے تو وہ مجھے اس میں سے کچھ ہبہ کردے کہ میں اس کو حلال سمجھوں۔ میں اپنے گھر آیا اور اس تھیلی کو کھولا تو اس میں دو ہزار سے زائد پیتل کے دینار تھے۔
میں نے اس کو دوبارہ بند کر دیا اور مسجد کی طرف لوٹا اور حجر اسود کے پاس بیٹھ کر آواز لگائی: ’’جس کی کوئی چیز کھوگئی ہو تو میرے پاس اس کی نشانی لے کر آئے اور اس کو لے لے۔‘‘ پھر میرا وہ دن آوازیں لگاتے لگاتے گزر گیا اور میرے پاس کوئی نہ آیا۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment