اٹھائیس ذی الحجہ 23ھ کو نماز فجر میں حضرت فاروق اعظمؓ پر ایک مجوسی نے قاتلانہ حملہ کردیا، چھ کاری زخم لگائے، وہ اس مذموم مقصد کے لیے پہلے سے محراب میں چھپا بیٹھا تھا، جونہی حضرت عمرؓ نے نماز کی نیت باندھ کر سورۃ فاتحہ کی قرأت شروع کی، اس نے محراب سے نکل کر آن کی آن میں آپ کو زخمی کرکے گرا دیا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے فوراً آگے بڑھ کر مختصر نماز پڑھائی۔ قاتل نے بھاگنے کی کوشش میں کئی اور صحابہؓ کو زخمی کیا اور آخر جب دیکھا کہ گرفتار ہو گیا ہے تو خود کشی کر لی۔
حضرت عمرؓ کو اٹھا کر ان کے گھر لایا گیا، ہوش میں آئے تو سب سے پہلے بات یہ کی کہ نماز کا وقت ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں! فرمایا مجھے قبلہ رخ کردو۔ اسی حالت میں نماز ادا کی اور فرمایا ’’خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے یہ فرض ادا کرنے کی توفیق دی، بھلا نماز کے بغیر آدمی کس کام کا ہے‘‘ پھر پوچھا! میرا قاتل کون ہے کہ میرے قتل کی وجہ سے وہ جہنم کا ایندھن بنا۔ جب بتایا گیا کہ ابولؤلؤۃ مجوسی ہے تو خدا کا شکر ادا کیا کہ کسی اسلام کے دعویدار نے مجھ پر حملہ نہیں کیا۔
رسول اکرمؐ کی تربیت
رسول اکرمؐ اپنے اصحابؓ کی تربیت کا ہر وقت خیال رکھتے تھے۔ اگر کسی کو دیکھتے کہ اس میں دنیا کی رغبت بڑھ رہی ہے یا وہ شان و شوکت اور عیش و تنعم کا سامان اکٹھا کر رہا ہے تو آپؐ کسی نہ کسی انداز سے اس کو تنبیہ فرماتے تھے۔ صحابہ کرامؓ بھی ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ کوئی فعل ایسا سرزد نہ ہو جو ان کے محبوبؐ کے مزاج کے خلاف ہو۔
ایک دن رسول اکرمؐ کا گزر ایک ایسی گلی سے ہوا، جہاں ایک انصاری کے مکان پر بند اٹاری بنی ہوئی تھی۔ آپؐ نے اس اٹاری کو دیکھ کر دریافت فرمایا ’’یہ اٹاری کس نے بنوائی ہے؟‘‘ صحابہؓ نے اس کے مالک کا نام بتایا۔ آپؐ نے یہ سن کر سکونت فرمایا۔
ایک دن جب وہ انصاری آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ کو سلام غرص کیا تو آپؐ نے جواب نہیں دیا۔ دوسری مرتبہ انہوں نے پھر سلام کیا۔ اس بار بھی جواب نہیں ملا تو انہیں خفگی کا اندازہ ہوا۔ انہوں نے صحابہؓ سے معاملہ پوچھا۔ صحابہؓ نے بتایا کہ ان کی عمارت کو دیکھ کر آپؐ نے استفسار فرمایا تھا۔ شاید یہی وجہ ہو سکتی ہے۔
ان انصاری کو بہت صدمہ ہوا کہ انہوں نے ایسی عمارت کیوں تعمیر کرائی، جس کو دیکھ کر رسول اکرمؐ کو ناگواری ہوئی۔ وہ فوراً گھر گئے اور اس اٹاری کو مسمار کرا ڈالا۔ پھر کبھی رسول کریمؐ کے سامنے اس کا ذکر تک بھی نہیں کیا۔ (ابودائود، حکایات صحابہ، ص 104)
٭٭٭٭٭