معارف القرآن

معارف و مسائل
اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ… انسان کے لئے حق تعالیٰ نے جو نعمتیں زمین و آسمان میں پیدا فرمائی ہیں، اس آیت میں علویات میں سے شمس و قمر کا ذکر خصوصیت سے شاید اس لئے کیا ہے کہ عالم دنیا کا سارا نظام کار ان دونوں سیاروں کی حرکات اور ان کی شعاعوں سے وابستہ ہے اور لفظ حسبان بضم الحاء بعض حضرات نے فرمایا کہ حساب کے معنے میں مصدر ہے، جیسے غفران، سبحان، قرآن اور بعض نے فرمایا کہ حساب کی جمع ہے اور مراد آیت کی یہ ہے کہ شمس و قمر کی حرکات جن پر انسانی زندگی کے تمام کاروبار موقوف ہیں، رات دن کا اختلاف، موسموں کی تبدیلی، سال اور مہینوں کی تعیین، ان کی تمام حرکات اور دوروں کا نظام محکم ایک خاص حساب اور اندازے کے مطابق چل رہا ہے اور اگر حسبان کو حساب کی جمع قرار دیا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ ان میں سے ہر ایک کے
دورے کا الگ الگ حساب ہے، مختلف قسم کے حسابوں پر یہ نظام شمسی اور قمری چل رہا ہے اور حساب بھی ایسا محکم و مضبوط کہ لاکھوں سال سے اس میں ایک منٹ، ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آیا۔
یہ زمانہ سائنس کی معراج کا زمانہ کہا جاتا ہے اور اس کی حیرت انگیز نئی نئی ایجادوں نے عقلاء کو حیران کر رکھا ہے، لیکن انسانی مصنوعات اور ربانی تخلیقات کا کھلا ہوا فرق ہر دیکھنے والا دیکھتا ہے کہ انسانی مصنوعات میں بگاڑ اور سنوار کا سلسلہ ایک لازمی امر ہے، مشین کوئی کتنی ہی مضبوط و مستحکم ہو، کچھ عرصہ کے بعد اس کو مرمت کی اور کم ازکم گریس وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس وقت تک کے لئے وہ مشین معطل رہتی ہے، حق تعالیٰ کی جاری کی ہوئی یہ عظیم الشان مخلوقات نہ کبھی مرمت کی محتاج ہے، نہ کبھی ان کی رفتار میں کوئی فرق آتا ہے۔
وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ… نجم اس درخت کو کہا جاتا ہے جس کی بیل پھیلتی ہے، تنا نہیں ہوتا اور شجر تنا دار درخت کو کہتے ہیں، یعنی ہر قسم کے درخت خواہ بیل والے ہوں یا تنے اور شاخوں والے، سب کے سب حق تعالیٰ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں، سجدہ کرنا چونکہ انتہائی تعظیم اور اطاعت کی علامت ہے، اس سے مراد یہاں یہ ہے کہ ہر ایک درخت، پودے اور بیل اور اس کے پتوں اور پھلوں اور پھولوں کو حق تعالیٰ نے جن خاص خاص کاموں اور انسان کے فوائد کے لئے بنایا ہے اور گویا ہر ایک کی ایک ڈیوٹی مقرر کر دی ہے کہ وہ فلاں کام کیا کرے، ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی ڈیوٹی پر لگا ہوا ہے اور حکم ربانی کے تابع، اس میں رکھے ہوئے فوائد اور خواص سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے، اسی تکوینی اور جبری اطاعت حق کو اس آیت میں سجدہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (روح، مظہری) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment