اعلیٰ نیٹو افسر کیسے مسلمان ہوا

ضیاءالرحمن چترالی
ایک دن میں جس کار میں بیٹھا تھا، اس کی شدید ٹکر دوسری کار سے ہو گئی۔ لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے بچا لیا۔ اس وقت ڈاکٹروں نے مجھ سے کہا کہ خدا تعالیٰ تم سے کوئی کام لینا چاہتا ہے، ورنہ ممکن نہیں تھا کہ تم اس حادثے میں بچ جاتے۔ اس سے میرے اس یقین میں اضافہ ہوا کہ جو کچھ کرتا ہے، خدا کرتا ہے۔ پھر میرے پیشاب میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی۔ اس کا انکشاف اس وقت ہوا، جب میں جرمنی میں فارن سروسز میں شامل ہوا اور مجھے سعودی عرب جانے کے لیے کہا گیا۔
چیک اپ کے بعد ڈاکٹروں نے بتایا کہ مجھے کینسر ہو سکتا ہے، حالانکہ یہ بات صحیح نہیں تھی۔ میری کیتھولک بیوی اس سے قبل کینسر سے مر چکی تھی۔ پھر بھی میں پریشان نہیں ہوا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے صبر سے کام لیا۔ کچھ باتوں کی وجہ سے مجھے ایک گردے سے محروم ہونا پڑا، اس وقت بھی میں نے یہی سوچا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت ہے کہ اس نے ایک ایسی بیماری میں مجھے مبتلا کیا اور میرا ایک گردہ نکال دیا گیا۔
فارن سروس کے دوران مجھے الجزائر جانے کا موقع ملا۔ وہاں میں ایک خاص مشن پر تھا۔ اس وقت الجزائر فرانس کے ماتحت تھا اور فرانس میں سامراجیت وہاں کے لوگوں پر بے پناہ ظلم کر رہی تھی، جو ناقابل بیان ہے۔ ہر ماہ وہاں ایک ہزار افراد فوجیوں کی گولیوں سے بھون دیے جاتے تھے۔ پھر بھی میں نے دیکھا کہ وہاں کے لوگوں کو خدا تعالیٰ پر بہت اعتماد ہے (واضح رہے کہ الجزائر کو ساٹھ کی دہائی میں آزادی ملی)
ایک بار ایک ٹیکسی ڈرائیور نے مجھ سے کہا کہ ہماری آبادی ایک کروڑ ہے۔ اگر یہ لوگ ہم میں سے دس بیس لاکھ یا اس سے زیادہ افراد کو بھی مار ڈالیں، تب بھی ہم آزادی کی مانگ سے باز نہیں آئیں گے اور صبر و ثبات اور خدا پر اعتماد کی جو قوت ہمارے اندر ہے، وہ ختم نہیں ہو سکتی۔ وہاں کے لوگوں کی ایمانی قوت نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں نے وہاں یہ بھی دیکھا کہ کیتھولک عیسائی ہونے کی وجہ سے خدا، وحی، آخرت، فرشتوں اور اخلاقی اصولوں کے بارے میں میرے جو عقائد ہیں، ویسے ہی عقائد ان کے بھی ہیں۔
اسی دوران رمضان کا مہینہ آیا اور مجھے قرآن مجید کا فرانسیسی ترجمہ پڑھنے کو ملا، جو اگرچہ معیاری نہیں تھا، پھر بھی اس سے میں بہت متاثر ہوا۔ قرآن مجید کے مطالعے کے دوران میں مجھے وہ آیت ملی، جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اس آیت پر میں غور کرتا رہا۔
ایک بار جب میں جنوبی الجزائر کے ایک نخلستان میں مقیم تھا تو میں نے وہاں ایک شخص سے اس آیت کا مطلب پوچھا۔ اس نے کہا کہ یہ آیت دو افراد کے درمیان معاملے پر روشنی نہیں ڈال رہی ہے، بلکہ اسلام کے بنیادی اصول کو پیش کر رہی ہے کہ کوئی شخص نہ تو دوسرے کے گناہوں کا ذمہ دار ہے اور نہ اس کا بوجھ اٹھائے گا۔ دادا کا گناہ منتقل ہوتا ہوا اولاد میں کسی دوسرے انسان تک نہیں پہنچا ہے۔ ہر انسان اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان کسی وسیلے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح میرے سامنے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ عیسائیت پوری کی پوری مفروضات پر قائم ہے۔
پھر مجھے محسوس ہوا کہ امت مسلمہ میں صاحب ایمان آزاد لوگ ہیں۔ ان میں ہر شخص ذمہ دار ہے اور عیسائیت میں موجود علاقائی تعصب سے پاک ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment