قصیدہ بردہ، ذکر معراج:
ترجمہ: ’’ آپ ایک شب میں حرم شریف مکہ سے حرم محترم مسجد اقصیٰ تک (باوجود یکہ ان میں فاصلہ چالیس روز کے سفر کا ہے، ایسے ظاہر و باہر تیز رو کمال نورانیت وار تفاع کدروت کے ساتھ) تشریف لے گئے جیسا کہ بدر (چودھویں کا چاند) تاریکی کے پردہ میں نہایت درخشانی کے ساتھ جاتا ہے۔‘‘
’’ اور آپ نے بحالت ترقی رات گزاری اور یہاں تک ترقی فرمائی کہ ایسا قرب الٰہی حاصل کیا جس پر مقربان درگاہ خداوندی میں سے کوئی نہیں پہنچایا گیا، بلکہ اس مرتبہ کا بسبب غایت رفعت کسی نے قصد بھی نہیں کیا تھا‘‘۔
’’ آپ کو مسجد بیت المقدس میں تمام انبیاء و رسل نے اپنا امام و پیشوا بنایا جیسا مخدوم خادموں کا امام و پیشوا ہوتا ہے۔‘‘
’’ اور (منجملہ آپ کی ترقیات کے یہ امر ہیں کہ ) آپ سات آسمانوں کو طے کرتے جاتے تھے جو ایک دوسرے پر ہے ایسے لشکر ملائکہ میں (جو بلحاظ آپ کی عظمت شان و تالیف قلب مبارک آپ ہمراہ تھا اور ) جس کے سردار اور صاحب علم آپ ہی تھے‘‘۔
’’ آپ رتبہ عالی کی طرف برابر ترقی کرتے رہے اور آسمانوں کو برابر طے کرتے رہے یہاں تک کہ جب آگے بڑھنے والے کی قرب و منزلت کی نہایت نہ رہی اور کسی طالب رفعت کے واسطے کوئی موقع ترقی کا نہ رہا تو‘‘
’’ (جس وقت آپ کی ترقیات نہایت درجہ کو پہنچ گئیں تو آپ نے ہر مقام انبیاء کو یا ہر صاحب مقام کو) بہ نسبت اپنے مرتبہ کے جو خداوند تعالی سے عنایت ہوا پست کر دیا، جب کہ آپ ’’اُدن‘‘ (یعنی قریب آجا) کہہ کر واسطے ترقی مرتبہ کے مثل یکتا و نامور شخص کے پکارے گئے۔‘‘
’’(یہ ندا یا محمد کی اس لئے تھی) تاکہ آپ کو وہ وصل حاصل ہو جو نہایت درجہ آنکھوں سے پوشیدہ تھا (اور کوئی مخلوق اس کو دیکھ نہیں سکتی اور) تاکہ آپ کامیاب ہوں اس اچھے بھید سے جو غایت مرتبہ پوشیدہ ہے‘‘۔ (عطر الوردۃ)
یہاں تک تو حضرتؒ نے قصیدہ بردہ سے معراج کا قصہ نقل فرمایا اور عطر الوردۃ جو قصیدہ بردہ کی اردو شرح حضرت شیخ الہند مولانا الحاج محمود الحسن صاحب دیوبندی قدس سرہ کے والد ماجد حضرت مولانا ذوالفقار علیؒ کی ہے اس سے ترجمہ نقل کیا۔ اس کے بعد آخری شعر یَا رَب صَلّ وَسَلّمْ … الخ تحریر فرماکر اپنی طرف سے عبارت ذیل کا اضافہ کیا ہے۔
جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’ہم ختم کرتے ہیں معراج والے قصہ پر کلام کو درود شریف کے ساتھ اس ذات پر جو سردار ہے سارے برگزیدہ لوگوں کی اور ان کی آل و اصحاب پر جو منتخب ہستیاں ہیں، جب تک کہ آسمان و زمین قائم رہیں‘‘۔
یَا رَبِِّ صَلِّ وَ سَلِّمْ دَآئِما اَبَداً
عَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلّھِم
اس سیاہ کار کو ان فضائل کے رسائل لکھنے کے زمانہ میں بعض مرتبہ خود کو اور بعض مرتبہ بعض دوسرے احباب کو کچھ منامات اور مبشرات بھی آئے۔
اس رسالہ فضائل درود کے لکھنے کے زمانہ میں ایک رات خواب میں یہ دیکھا کہ مجھے یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ اس رسالہ میں قصیدہ ضرور لکھیو، لیکن قصیدہ کی تعین نہیں معلوم ہو سکی۔ البتہ خود اس ناکارہ کے ذہن میں خواب ہی میں یا جاگتے وقت دو خوابوں کے درمیان میں (اس لئے کہ اسی وقت دوبارہ بھی اسی قسم کا خواب دیکھا تھا) خیال آیا، کہ اس کا مصداق مولانا جامیؒ کی وہ مشہور نعت ہے جو یوسف زلیخہ کے شروع میں ہے۔ جب اس ناکارہ کی عمر تقریباً دس گیارہ سال کی تھی، گنگوہ میں اپنے والد صاحبؒ سے یہ کتاب پڑھی تھی۔ اسی وقت ان کی زبانی اس کے متعلق ایک قصہ بھی سنا تھا اور وہ قصہ ہی خواب میں اس کی طرف ذہن کے منتقل ہونے کا داعیہ بنا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭