سرفروش

عباس ثاقب
اسلم مجھے ٹیکسی میں بٹھاکر بھنڈی بازار ہی کے علاقے میں میرے ٹھکانے سے لگ بھگ دو فرلانگ کے فاصلے پر واقع نورِ محمدی ریسٹورنٹ لے گیا، جو میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ابھی کوئی سات بجے کا وقت ہوا ہوگا، لیکن اوس سے بھیگی نیم تاریک سردیوں کی صبح ہونے کے باوجود نہ صرف وہ طعام خانہ کھلا ہوا تھا، بلکہ درجنوں گاہک بھی گرما گرم ناشتے سے پیٹ بھرنے میں مشغول دکھائی دیئے۔ اسلم مجھے ساتھ لے کر ایک میز پر جا بیٹھا۔
’’بومبے میں ناشتے کا یہ میرا پسندیدہ ٹھکانا ہے۔ یہاں سے ٹینکی فُل کرکے نکلتا ہوں پھر اکثر شام کو ہی بھوک لگتی ہے۔ یہاںکی نلی نہاری اور دیسی گھی میں فرائی کی گئی دال کی پورے بومبے میں دھوم ہے۔ بہت خاص الخاص مصالحے استعمال کرتے ہیں یہ لوگ‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’عجیب بات ہے، اتنی صبح کھل جاتا ہے یہ ریسٹورنٹ؟‘‘۔
میری بات سن کر اس نے قہقہہ لگایا۔ ’’یہی تو نورِ محمدی ہوٹل کی خاص بات ہے۔ سردی ہو یا گرمی، آندھی ہو یا طوفان، ٹھیک چھ بجے یہاں ناشتہ تیار ملے گا اور رات ڈیڑھ بجے بند ہونے تک یہاں اچھے کھانے کے شوقینوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ یہاں کے چٹ پٹے کباب بھی اپنی مثال آپ ہوتے ہیں‘‘۔
اسلم نے ناشتے کا آرڈر دیا اور دھیمے لہجے میں مخاطب ہوا۔ ’’یہ علاقہ محمد علی روڈ کہلاتا ہے۔ یہ بومبے میں دو نمبر دھندا کرنے والوں اور غنڈے موالیوں کا مرکز ہے۔ شام سے رات تک یہاں خطرناک مجرموں کی ریل پیل ہوتی ہے‘‘۔
اسلم کی بات سن کر میں نے ارد گرد ناشتے میں مشغول افراد کو غور سے دیکھا تو ان میں کئی انتہائی کھردرے نقوش اور کڑے تیوروں والے چہرے دکھائی دیئے۔ اسلم نے میری نظروں کے ہدف بھانپتے ہوئے کہا۔ ’’تم نے ٹھیک اندازہ لگایا۔ ان میں سے بہت سے اسی مخصوص طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جو اپنی شبینہ سرگرمیوں کے بعد اب گویا ڈیوٹی ختم کر کے یہاں پیٹ بھرنے آئے ہیں۔ لیکن کسی غیر متعلق شخص کو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا‘‘۔
اسلم نے مبالغے سے کام نہیں لیا تھا۔ ذائقے اور معیار کے اعتبار سے اس ریسٹورنٹ کے کھانے اپنی مثال آپ تھے۔ میں نے اسلم کی تکنیک کے مطابق ڈٹ کر مرغن ناشتہ کیا اور شام تک کے لیے بھوک سے آزاد ہوگیا۔ ناشتے کی قیمت اسلم نے چُکائی، جو مجھے بہت مناسب لگی۔ میرا مختصر سامان ہم نے پہلے ہی ساتھ لے لیا تھا۔ چنانچہ ہم سیدھا بمبئی سینٹرل ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئے اور ناگ پاڑہ کے علاقے سے گزرتے ہوئے تقریباً دس منٹ میں منزل پر پہنچ گئے۔
راستے میں وہ مسلسل اب تک کی میری کارکردگی کو سراہتا اور نئی مہم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا رہا۔ البتہ میری سلامتی کے حوالے سے وہ کافی متفکر تھا۔ کیونکہ یہ مہم مجھے تن تنہا سر انجام دینی تھی۔ میں نے اسے اپنی طرف سے اطمینان دلانے کی کوشش کی، لیکن اس کے چہرے پر اندیشوں کے سائے بدستور لہراتے رہے۔ اسٹیشن پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ٹرین تو پلیٹ فارم پر لگ چکی ہے، تاہم اس کی روانگی میں ابھی پونا گھنٹا باقی ہے۔ وہ وقت ہم نے حالاتِ حاضرہ خصوصاً پاکستان کی سیاسی صورتِ حال پر بات چیت کرتے گزار دیا۔
اس دوران اسلم کی باتوں سے ظاہر ہوا کہ وہ پاکستان کے تازہ ترین حالات سے واقف رہتا ہے۔ اس نے صدر ایوب خان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ملک کی اقتصادی صورتِ حال میں بتدریج بہتری پر اطمینان کا اظہار کیا، تاہم وہ ملک میں سیاست اور جمہوریت کو پس منظر میں دھکیل دیئے جانے پر مضطرب تھا۔ اس نے دبے لفظوں میں محترمہ فاطمہ جناح سمیت پاکستان کے قیام میں پیش پیش بچے کھچے قومی رہنماؤں سے ایوب حکومت کے نامناسب سلوک پر مایوسی بھی ظاہر کی۔
میں نے اس کا ذہن اس تکلیف دہ موضوع سے ہٹانے کے لیے بتایا کہ کل شام میں نے بازار سے بغیر نمبروں کا ایک نفیس سا چشمہ خرید کر رکھ لیا تھا، جسے بوقت ضرورت آنکھوں پر چڑھا نے سے میری شکل میں خاصی تبدیلی آجاتی ہے۔ میں نے ایک موٹا سا اونی ٹوپا بھی خریدا تھا، جو سر کے ساتھ ساتھ گدی، گردن اور ٹھوڑی کو بھی ڈھانپ لیتا تھا۔ بوقت ضرورت اس کا نچلا حصہ کھینچ کر منہ بھی چھپایا جا سکتا تھا۔ جبکہ جیکٹ، اونی مفلر اور چادر تو پہلے ہی میرے زیر استعمال تھے۔ سردی کے موسم میں شناخت چھپانے کے یہ باسہولت طریقے مجھے بہت غنیمت لگتے تھے۔
اسلم نے میری ان احتیاطی تدابیر کو سراہا اور ساتھ ہی اپنی
شناخت بدلنے کے کچھ اور سادہ طریقوں سے مجھے آگاہ کیا۔
اتنے دنوں تک بار بار ملاقاتوں اور اس دن سمیت کئی مرتبہ تفصیلی گفتگو کے باوجود اس نے اپنی ذاتی زندگی یا پیشہ وارانہ ذمہ داریوںکے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ چنانچہ میں نے بھی کریدنا ضروری نہیں سمجھا۔ البتہ میں نے اسے اپنے بارے میں تقریباً سب کچھ بتا دیا تھا۔ کیونکہ میرے نزدیک میری زندگی میں کوئی راز رکھنے کے قابل بات تھی ہی نہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment