نجم الحسن عارف
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی آشیانہ ہائوسنگ اسکینڈل میں گرفتاری کے خلاف احتجاج کے لئے نواز لیگ نے ساری اپوزیشن کو ساتھ ملا کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کے مطابق ابھی حکومت کے خلاف ایک بھرپور تحریک کا وقت نہیں آیا ہے۔ اس لئے اس وقت کے آنے تک پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہی احتجاج کیا جائے گا۔ اس احتجاج کو موثر بنانے کے لئے دیگر اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف) اور اے این پی کو ساتھ ملا کر آگے بڑھا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے فوری طور پر پارٹی کے قائد میاں نواز شریف نے سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے مختلف رہنمائوں کو مذکورہ بالا سیاسی جماعتوں سے رابطوں کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔ جو آئندہ چند دنوں میں اپنی باضابطہ رپورٹ پارٹی قیادت کو پیش کریں گے۔ ان رابطوں کے نتیجے میں 14 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کے ووٹ بینک کو بچانے اور مشترکہ طور پر حکومتی امیدواروں کو شکست دینے کی حکمت عملی بھی اہم ہوگی۔ نیز احتساب کے نام پر مبینہ انتقامی کارروائیوں کے خلاف بھی مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔ ذرائع کے بقول نواز لیگ کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں اگرچہ بعض رہنمائوں نے ابھی سے عمران حکومت کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک کی تجویز پیش کی اور خواہش ظاہر کی کہ میاں نواز شریف کی زیر قیادت نکلا جائے تو عوام کا ریسپانس ملے گا۔ لیکن پارٹی قیادت نے فی الحال ’تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو‘ کے مصداق تھوڑے انتظار کیلئے کہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ لیگی قیادت سمجھتی ہے کہ جتنی کمزور حکومت بنی ہے اور جس طرح کی پرفارمنس حکومت نے پہلے پچاس دنوں میں دکھائی ہے، اس کے خلاف کسی بڑی تحریک کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ تاہم میڈیا اور عوام کو ساتھ رکھنے کیلئے احتجاجی سرگرمیاں ضرور کی جائیں گی۔
پیر کے روز اجلاس میں شریک ہونے والے ایک اہم مرکزی عہدیدار نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 12 اکتوبر کو موچی باغ میں ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے جلسے میں میاں نواز شریف اور مریم نواز کی شرکت کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔ ان کے بقول وہ اس جلسے سے خطاب کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ دوسری جانب پارٹی کے ایک اور اہم ذریعے نے ’’امت‘‘ کے استفسار پر کہا کہ ’’موچی باغ میں 12 اکتوبر کو اعلان شدہ جلسہ میاں نواز شریف کے شایان شان نہیں۔ وہ اگر خطاب کیلئے میدان میں آئیں گے تو لاہور کے مال روڈ اور اسلام آباد کے ڈی چوک وغیرہ کا انتخاب کریں گے۔ لیکن ابھی وقت نہیں آیا‘‘۔ ایک سوال پر اس ذریعے کا کہنا تھا کہ ’’میاں شہباز شریف کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد بھی پہلے دو دن سابق وزیر اعظم نے صرف خاندان کے افراد کے ساتھ ہی مشاورت رکھی۔ پارٹی کے کسی رہنما سے ملاقات ہوئی نہ فون پر بات چیت کی۔ اس ماحول میں پارٹی کا اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی اتوار کو رات گئے بلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس لئے پارٹی رہنمائوں کو رات دس بجے کے قریب اطلاع کی گئی‘‘۔ واضح رہے کہ اس سے قبل یہ اطلاع سامنے آ رہی تھی کہ پارٹی کا اہم اجلاس ماڈل ٹائون میں ہوگا۔ اس اجلاس کی اطلاع کرتے ہوئے یہ بھی واضح نہیں تھا کہ میاں نواز شریف خود اجلاس کی صدارت کریں گے یا نہیں۔ لیکن میاں نواز شریف کی نیب حوالات میں میاں شہباز شریف سے ہونے والی ملاقات کے بعد پارٹی کے مرکزی فورم کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق جارحانہ مزاج اور اسی شناخت کے ساتھ ابھرنے والی مریم نواز نے بھی سیاسی سرگرمیوں کو اس حد تک اپنے سے دور رکھا ہوا ہے کہ انہوں نے رہائی کے باوجود اپنا ’’ٹویٹس اکائونٹ‘‘ فعال کیا ہے اور نہ ہی اپنا ’’واٹس ایپ‘‘ آن کا ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے قبل مریم نواز اپنے ’’واٹس ایپ‘‘ نمبر کو رات ایک دو بجے تک استعمال میں رکھتی تھیں۔ رات کے ایک بجے یا اس کے بعد بھی ’’واٹس ایپ‘‘ پر پارٹی رہنمائوں کے استفسارات اور تجاویز کا جواب دیتی تھیں۔ لیکن اب تک یہ سارے ذرائع انہوں نے استعمال کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
پارٹی اجلاس میں شرکت کے بعد ایک اہم رہنما نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ’’ہم ایک بالغ نظر جماعت ہیں۔ ہم سارے فیصلے سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ جلد بازی میں دھرنا دیں گے نہ سڑکوں پر نکلیں گے۔ جو بھی کریں گے ٹھیک وقت پر فیصلے کریں گے۔ جہاں تک اسمبلیوں میں نمبر گیم پر اثر انداز ہو کر ایوان کے اندر سے تبدیلی کی کوشش ہے، اس میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کی حکوت کے پیچھے جو قوت موجود ہے اسے آسانی سے کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ لہٰذا ہم اپنے سارے پتے وقت کا درست انتخاب کرتے ہوئے شو کریں گے‘‘۔ نواز لیگ کے ایک اور مرکزی رہنما نے اپنی نجی محفل کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے ’’امت‘‘ سے کہا ’’مسلم لیگ کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے۔ پاکستان بنایا تھا تو بھی ایجی ٹیشن کا سہارا نہیں لیا تھا۔ اب بھی پارلیمنٹ ہی ہماری جدوجہد کا مرکز ہوگی۔ اگر پارلیمنٹ میں بات نہ سنی گئی تو پھر دوسرے آپشنز پر سوچا جائے گا‘‘۔ ایک سوال پر ان رہنما نے کہا کہ طلال چوہدری، دانیال عزیز، عابد شیر علی جیسے لوگوں نے اپنے بیانات سے پارٹی کو نقصان پہنچایا ہے۔ اب دوسرے رہنمائوں کی بات زیادہ سنی جانے کا امکان ہے۔
خیال رہے کہ نواز لیگ کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں چار سے پانچ کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں، جو اگلے چند دنوں میں اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کے لائحہ عمل پر مشاورت کرے گی۔ ریسپانس ملنے کے بعد حتمی حکمت عملی بنائی جائے گی۔ اگر ریسپانس اچھا ہوا تو اے پی سی، اور اپوزیشن اتحاد کی تجویز کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم ابتدائی اور فوری سوال پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں مشترکہ احتجاجی حکمت عملی اور ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کے ووٹ ضائع ہونے سے بچانا ہوگا۔ تاکہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں حکومت کی عددی قوت کو مزید کمزور کیا جا سکے۔
٭٭٭٭٭