انسانی اسمگلنگ کیسوں سے ایف آئی اے کی توجہ ہٹ گئی

عمران خان
ایف آئی اے حکام کی تمام تر توجہ منی لانڈرنگ کیسز اور بیرون ملک جائیدادوں کی تحقیقات پر مرکوز ہونے کے باعث انسانی اسمگلنگ سے متعلق کیسوں اور انکوائریوں پر پیش رفت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ انسانی اسمگلنگ پر قابو پانا اور ملزمان کی گرفتاریاں ایف آئی اے کی ذمہ داریوں میں سر فہرست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی ادارے کی جانب سے دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے تیار کردہ رپورٹ 2018ء میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی انسانی اسمگلنگ پر نہ صرف تشویش کا اظہار کیا گیا، بلکہ انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائیوں میں پاکستانی حکومت اور ایف آئی اے کے اقدامات کو انتہائی ناکافی قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں جبری مشقت کے علاوہ قحبہ گری کیلئے کی جانے والی انسانی اسمگلنگ میں بھی گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔ جبری مشقت کرانے والے، بچوں اور عورتوں سمیت پورے خاندانوں کو اپنا غلام بنا کر رکھتے ہیں۔ ایسے افراد کو مختلف سیاسی جماعتوں کی سرپرستی حاصل ہے، جس کو استعمال کرکے وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی سے بچ جاتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بعض اوقات جب غلام بنائے گئے افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تو پولیس اہلکاروں نے ان کو پکڑ کر واپس ان کے مالکان کے حوالے کردیا۔
ذرائع کے مطابق انسانی اسمگلروں نے حالیہ عرصے میں روایتی راستوں کے ساتھ ساتھ متبادل روٹس کا انتخاب کرنا شروع کر دیا ہے۔ چونکہ انسانی اسمگلروں کی جانب سے بیرون ملک جانے کے خواہشمندوں کو جعلی سفری دستاویزات پر پاکستان سے براہ راست امریکہ اور یورپی ممالک بھجوانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اس لئے انسانی اسمگلنگ کیلئے سابق روسی ریاستوں اور افریقی ممالک کو استعمال کرنا شروع کردیا گیا ہے، جہاں پاکستانی باشندوں کیلئے امیگریشن قوانین میں قدرے نرمی ہے۔ انسانی اسمگلرز اس وقت جعلی سفری دستاویزات پر لوگوں کو برطانیہ بھجوانے کیلئے سابق روسی ریاستوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ امریکہ اور کینیڈا بھجوانے کیلئے چھوٹی چھوٹی افریقی ریاستوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ نئے روٹس کے حوالے سے حالیہ دنوں میں ڈی پورٹ ہو کر واپس آنے والے اور ایئرپورٹ سے حراست میں لئے گئے افراد نے اپنے بیانات میں انکشاف کیا کہ اس دھندے میں 4 بڑے گروپ ملوث ہیں، جن میں دو گروپ غیر ملکی ہیں اور دو گروپوں کا تعلق پنجاب اور خیبر پختون سے ہے۔ پہلا گروپ چوہدری حبیب کی سر براہی میں کام کر رہا ہے، جس کا تعلق ہری پور کے علاقے سے ہے۔ جبکہ اس کے سب ایجنٹ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کراچی میں بھی اس کی ٹریول ایجنسی کام کر رہی ہے۔ اس گروپ کے سب ایجنٹ نہ صرف پاکستان، بلکہ افریقی ملک گھانا اور جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹائون میں بھی موجود ہیں، جن میں افریقی باشندے بھی شامل ہیں۔ یہ افریقی باشندے بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد کے پاسپورٹ اکٹھے کرنے کیلئے کراچی آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس گروپ کا ایک مرکزی کردار ’’آکاش‘‘ نامی شخص کینیڈا میں بھی موجود ہے جس کا تعلق بھارت سے ہے۔ جبکہ دوسرا گروپ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے ملک منیر کا ہے، جس کے سب ایجنٹ پاکستان کے مختلف شہروں کے علاوہ یوکرائن، ترکی اور برطانیہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس گروپ کے پاس بڑی تعداد میں جعلی برطانوی پاسپورٹ بھی موجود ہیں جن کے ذریعے اس گروپ کے ارکان پاکستانیوں کو برطانوی شہری ظاہر کرکے یو کرائن، ترکی اور دیگر ممالک سے برطانیہ بھیجوا دیتے ہیں۔ چوہدری حبیب کے سب ایجنٹ جن افراد سے یورپی ممالک جانے کے 8 سے 10لاکھ روپے وصول کرتے ہیں، ان سے پاسپورٹ لے کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور بعد ازاں گھانا اور کیپ ٹائون میں موجود اس گروپ کے افریقی کارندے کراچی آکر یہ پاکستانی پاسپورٹ اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں۔ ان پاسپورٹس کے ذریعے گھانا اور کیپ ٹائون کی ٹریول ایجنسیوں سے ان پاکستانی افراد کے کیس کینیڈا اور امریکی ریکروٹمنٹ کمپنیوں کو ارسال کرتے ہیں۔ ان کمپنیوں میں کینیڈا کی سی فوڈ اور کین ریکروٹمنٹ کمپنیاں شامل ہیں۔ یہ کیسز انہی دو مخصوص کمپنیوں کو ارسال کئے جاتے ہیں۔ بعد ازاں کینیڈا میں موجود آکاش نامی شخص چوہدری حبیب سے رابطہ کرکے ان کیسز کی تصدیق کرتا ہے اور گھانا اور کیپ ٹائون کی ان ٹریول ایجنسیوں کو ہدایت کے لیٹر جاری کرتا ہے کہ جن پاکستانی افراد کے ایمپلائمنٹ کیسز بھیجے گئے ہیں ان کو فوری طور پر تمام سفری دستاویزات جاری کی جائیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ شخص ان کیلئے ’’ نان ٹیرراسسٹ سر ٹیفیکٹس‘‘ بھی جاری کرواتا ہے۔ جب ان افراد کی تمام دستاویزات تیار ہو جاتی ہیں تو پاسپورٹ لے کر جانے والے افریقی یہ پاسپورٹ لے کر کراچی واپس آجاتے ہیں اور ساتھ ہی ان افراد کے افریقی ممالک کے ویزے بھی آجاتے ہیں۔ بعد ازاں ان افراد کو پہلے افریقی ریاستوں میں بھجوایا جاتا ہے اور جہاں سے یہ پاکستانی افراد کینیڈا اور دیگر ممالک پہنچ جاتے ہیں۔ ملک منیر کے گروپ کے کارندے بھی یورپی ممالک فرانس، اسپین، جرمنی اور برطانیہ بھجوانے کیلئے یہی طریقہ کار استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان یورپی ممالک کے جعلی پاسپورٹ بنوا رکھے ہیں اور یہ پاسپورٹ اور دیگر شناختی دستاویزات یوکرائن، آسٹریا، ترکی، تاجکستان، ترکمانستان وغیرہ میں موجود ان کے سب ایجنٹوں کے پاس ہوتی ہیں۔ کراچی سے یورپی ممالک جانے والے افراد کو 10 سے 12 لاکھ روپے وصول کر کے اصل سفری دستاویزات پر یوکرائن، آسٹریا، ترکی، تاجکستان، ترکمانستان وغیرہ بھیجوایا جاتا ہے، جہاں سے ان افراد کو ہدایت دی جاتی ہے کہ اب وہ اپنی پاکستانی شناختی دستاویزات کے بجائے ان ممالک کی دستاویزات استعمال کریں جن ممالک میں ان کو جانا ہے۔ ساتھ ہی ان کو برطانیہ اور دیگر ممالک کے جعلی پاسپورٹ فراہم کردیئے جاتے ہیں اور ٹکٹ کا بندو بست بھی کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح یوں ظاہر کیا جاتا ہے کہ جیسے یہ افراد انہیں یورپی ممالک کی شہریت رکھتے ہیں اور وزٹ ویزے پر پاکستان جانے کے بعد اب واپس برطانیہ یا دیگر یورپی ممالک کی طرف جا رہے ہیں۔ انسانی اسمگلروں نے آہستہ آہستہ دو طریقے ایسے دریافت کر لئے ہیں، جن کے ذریعے وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔ ان میں سے ایک طریقہ اسٹوڈنٹ ویزوں کی آڑ میں لوگوں کو بیرون ملک بھجوانا اور دوسرا طریقہ ایسے ممالک کے ذریعے بیرون ملک جانے والے خواہشمندوں کو یورپی ممالک میں بھجوانا ہے، جہاں پر پاکستانی باشندوں کیلئے امیگریشن قوانین نسبتاً نرم ہیں۔ مذکورہ افسرکے مطابق پہلے طریقہ کار کیلئے انسانی اسمگلر مختلف مقامات پر اورسیز اسٹوڈنٹ ویزہ کنسلٹنٹ کے دفاتر کھول کر بیٹھ گئے ہیں اور جعلی تعلیمی اور سفری دستاویزات کے ذریعے لوگوں کو برطانیہ، امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں بھجوانے لگے ہیں۔ جبکہ دوسرے طریقہ کار کیلئے انہوں نے ایسے ممالک کو تلاش کیا ہے، جہاں پاکستانی باشندوں کیلئے امیگریشن قوانین نرم ہیں۔ ان میں سابق روسی ریاستوں کے علاوہ افریقی ممالک شامل ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment