انعام بٹ نے حکومتی سرپرستی کے بغیر خود کو منوایا

نمائندہ امت
گوجرانوالہ کے محمد انعام بٹ نے ورلڈ بیچ ریسلنگ چیمپئن شپ کے فائنل میں نائیجریا کے پہلوان کو شکست دے کر دوسری مرتبہ ٹائٹل اپنے نام کرلیا۔ محمد انعام بٹ جو اس سے پہلے بھی عالمی سطح پر کئی گولڈ میڈل جیت چکے ہیں، نے یہ کامیابی حکومتی سرپرستی کے بغیر حاصل کی۔ انہوں نے اپنا گولڈ میڈل ان تقریباً 100 شاگردوں کے نام کیا، جو ان سے ریسلنگ کی تربیت لے رہے ہیں اور اپنی اس کامیابی کو اپنے والد صفدر لالہ کے نام کیا، جو ان کے کوچ بھی ہیں۔ انعام بٹ آج منگل کو دو بجے ترکی سے واپس لاہور پہنچیں گے جہاں ان کا شاندار استعمال کیا جائے گا۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انعام بٹ نے کہا کہ ’’میں جو کچھ بھی ہوں، اپنے والد کی وجہ سے ہوں۔ میرے پہلے کوچ چوہدری شبیر حسن کی وفات کے بعد میرے والد نے ہی میری کوچنگ اور تربیت کی‘‘۔ انعام بٹ نے کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ریسلنگ صرف طاقت اور قوت کا کھیل ہے۔ دراصل اس کھیل میں طاقت سے زیادہ ذہانت، فیصلہ سازی اور بروقت داؤ پیچ کا عمل دخل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہاکی کے عالمی سطح پر سب سے زیادہ گولڈ میڈل جیتے ہیں جس کے بعد دوسرے نمبر پر ریسلرز نے سرکاری سرپرستی کے بغیر کسی بھی دوسری گیم سے زیادہ گولڈ میڈل حاصل کئے۔ اگر حکومت ریسلرز کو سہولیات دے اور اس کھیل کی سرپرستی کی جائے تو اولمپک گیمز میں بھی گولڈ میڈل حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک خصوصاً گوجرانوالہ میں بچوں اور نوجوانوں کو اس کھیل کا بہت شوق ہے اور ہمارے پاس بہت ٹیلنٹ ہے جسے تربیت دینے اور سہولیات فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومتی سرپرستی سے ریسلنگ کے میدان میں وہ پاکستان کا نام کئی مقابلوں میں روشن کر سکتے ہیں اور گولڈ میڈل لا سکتے ہیں۔
محمد انعام بٹ نے عالمی سطح پر پہلی دفعہ 2010ء میں کامن ویلتھ گیمز میں میڈل جیتا تھا۔ ایشین گیمر میں سلور میڈل جیتا، جبکہ وہ قومی چیمپئن رہے۔ 2016ء میں تھائی لینڈ میں ہونے والے عالمی مقابلوں میں گولڈ میڈل جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا، گزشتہ سال 2017ء میں ورلڈ بیچ ریسلنگ چمپئن شپ میں گولڈ میڈل جیت کر بھی سبز ہلالی پرچم لہرایا۔ جبکہ اس سال اپریل میں بھارت میں ہونے والی ایشین گیمز میں ریسلنگ کے شعبے میں پاکستان کیلئے واحد گولڈ میڈل محمد انعام بٹ نے ہی جیتا تھا۔ 2017ء کے بعد لگاتار دوسری دفعہ ورلڈ بیچ ریسلنگ کے مقابلے میں گولڈ میڈل حاصل کرکے انہوں نے اپنی قابلیت منوالی ہے۔ واضح رہے کہ بیچ ریسلنگ کے مقابلے ساحل کنارے منعقد کئے جاتے ہیں۔ اس بار یہ منفرد چیمپئن شپ ترکی کے سیاحتی مقام پر کرائی گئی، جس میں دنیا بھر سے ریسلرز نے شرکت کی۔ انعام بٹ نے اپنے مستقبل کے اہداف کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ اولمپکس میں پاکستان کیلئے گولڈ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر حکومت یا نجی شعبہ سرپرستی کرے تو پاکستان میں اتنا ٹیلنٹ موجود ہے کہ اولمپک گیمز میں بھی گولڈ میڈل سمیت کئی میڈل جیتے جا سکتے ہیں۔
پاکستان ریسلنگ فیڈریشن جس کے سربراہ محمد عبدالمبین ہیں ،گوجرانوالہ کے ریسلرز کی اپنے محدود وسائل کے ساتھ سرپرستی کرتے آرہے ہیں۔ اب بھی اس فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل محمد ارشد ستار ایک نوجوان ریسلر کی سپورٹ کرتے ہوئے انہیں تھائی لینڈ لر کر گئے ہیں، جہاں ایک الگ کیٹیگری کا مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔ نوجوان ریسلر کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے سے پہلے 6 سے 7 پہلوانوں کے ساتھ مٹی کے میدان پر مقابلے کرائے گئے، جس میں سے انہیں سلیکٹ کیا گیا۔ ریسلنگ فیڈریشن نے انعام بٹ کی کامیابی پر گزشتہ سال انہیں وہ مخصوص ’’میٹ‘‘ بطور انعام دیا تھا جس پر عالمی مقابلے ہوتے ہیں تاکہ وہ پریکٹس کر سکیں، کیونکہ مٹی پر پریکٹس کرنے والے ریسلرز کا مقابلے کے دوران پلاسٹک کے ’’میٹ‘‘ پر پاؤں پھسل جاتا ہے اور وہ گر کر شکست کے قریب جا پہنچتا ہے۔ اس میٹ کا انعام بٹ صرف اپنی ذات یا دوستوں کیلیے استعمال نہیں کر رہے بلکہ ایک سو کے قریب لڑکے جن کی عمریں چودہ پندرہ سال یا اس سے زائد ہیں، وہ اس میٹ پر پریکٹس کرکے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ 2011ء میں ایک انجری کے بعد انعام بٹ تقریباً ساڑھے تین چار سال ریسلنگ سے دور رہے، لیکن جب 2015ء میں دوبارہ میدان میں اترے تو اپنی قابلیت کے بل بوتے پر دوبارہ کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ انعام بٹ پنجاب گروپ آف کالجز کے گوجرانوالہ میں واقع ایک کالج کے طالب عالم بھی ہیں، ان کی عظیم الشان کامیابی پر گزشتہ سال انہیں پانچ لاکھ روپے کا انعام دیا تھا۔
ریسلنگ فیڈریشن کے صدر محمد عبدالمبین نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپنے وسائل سے بڑھ کر ہم ریسلرز کی مدد اور رہنمائی کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان خود اسپورٹس مین ہیں اور کھیلوں کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ اگر حکومت ریسلنگ پر توجہ دے اور اس کیلئے متعلقہ فیڈریشنز اور ایسوی ایشنز کیلئے فنڈز متخص کئے جائیں تو عالمی سطح پر ہم کسی بھی دوسرے کھیل سے زیادہ میڈل جیت سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment