شریف خاندان کے قریبی میں منشا پر ہاتھ ڈالنے کی تیاری

شریف خاندان سے قریبی تعلقات رکھنے والے ارب پتی تاجر میاں محمد منشا کے خلاف 95 ملین ڈالر کی مبینہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے حوالے سے گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے۔ اس ڈویلپمنٹ سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ اس کیس میں وزیر اعظم عمران خان ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے ماتحت ادارے ایف بی آر سے اہم دستاویزات بھی منگوا لی ہیں۔ جبکہ دیگر متعلقہ اداروں کو بھی شواہد جمع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، تاکہ یہ ثبوت نیب کے حوالے کئے جا سکیں۔ نیب، منی لانڈرنگ کی یہ تحقیقات پاکستان ورکرز پارٹی کے چیئر پرسن فاروق سلہریا کی ایک درخواست پر کر رہا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ میاں منشا نے لندن میں خطیر رقم
سے ایک شاندار ہوٹل خریدا۔ اس کے لئے 95 ملین ڈالر برطانیہ منتقل کئے گئے۔ نیب لاہور آفس فاروق سلہریا کا بیان ریکارڈ کر چکا ہے۔ جبکہ فاروق سلہریا کے پاس میاں منشا کے خلاف منی لانڈرنگ کے جتنے شواہد تھے، وہ تحقیقاتی ادارے کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔ نیب لاہور آفس نے میاں منشا کو 17 اگست کو طلب کیا تھا۔ اور ہدایت کی تھی کہ وہ لندن میں اپنے ہوٹل کی خریداری سے متعلق تمام کاغذات لے کر پیش ہوں۔ تاہم میاں منشا پیش نہیں ہوئے۔ جس پر میاں منشا کو 27 اگست کو پیش ہونے کا نوٹس بھیجا گیا۔ لیکن اس مرتبہ بھی ارب پتی تاجر نے نیب آفس جانے سے گریز کیا۔ واضح رہے کہ میاں منشا نشاط گروپ اور مسلم کمرشل بینک کے سربراہ ہیں۔ ان کا شمار پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ 2010ء میں فوربس میگزین نے دنیا کی ارب پتی شخصیات میں میاں منشا کا نام شامل کیا تھا۔ جبکہ 2013ء میں میاں منشا کے اثاثوں کی مالیت دو ارب ساٹھ کروڑ ڈالر تھی، جس میں اب اضافہ ہو چکا ہے۔ لاہور میں منشا گروپ کے ایک قریبی ذریعے کے بقول نشاط گروپ کے سربراہ کا خیال ہے کہ منی لانڈرنگ کا یہ کیس بھی نواز خاندان سے ان کی قربت کا نتیجہ ہے، اور وہ اس سلسلے میں نیب آفس میں پیش نہیں ہونا چاہتے۔ میڈیا سے فاصلہ رکھنے والے نشاط گروپ نے اس کیس کے حوالے سے ایک بیان ضرور جاری کیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ نیب میں ایک جھوٹی اور غیر سنجیدہ شکایت درج کرائی گئی ہے، جس کا مقصد گروپ کو بدنام کرنا ہے۔ نون لیگ کے اندرونی ذرائع کے مطابق شریف خاندان اور میاں منشا کی فیملی کے درمیان تین دہائی پرانے تعلقات ہیں۔ جب بھی مسلم لیگ ’’ن‘‘ اقتدار میں آئی تو اس کی انتخابی مہم کے بیشتر اخراجات میاں منشا نے برداشت کئے۔ میاں منشا کو مسلم کمرشل بینک کی نجکاری کے عمل میں ہونے والی بے قاعدگیوں کے حوالے سے بھی تحقیقات کا سامنا ہے۔ یہ تحقیقات نیب نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں شروع کی تھیں۔ تاہم یہ پراسس سست روی کا شکار تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ اب نہ صرف میاں منشا کے خلاف مبینہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات بلکہ ایم سی بی نجکاری کیس کی تفتیش کو بھی تیز کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اور اس پر مشاورت کی جا رہی ہے کہ اگر نیب کے مسلسل طلب کئے جانے کے باوجود بھی میاں منشا پیش نہیں ہوتے تو انہیں گرفتار کر لیا جائے۔ ذرائع کے بقول وزیر اعظم ہائوس کی جانب سے ایف بی آر کو خصوصی ہدایت ہے کہ وہ نشاط گروپ کے ٹیکس سے متعلق معاملات کی مکمل تفصیلات بھی جلد سے جلد جمع کرے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ضمنی الیکشن سے پہلے میاں منشا کو گرفتار کر لیا جائے۔ البتہ حکومت کے چند خیر خواہ مشورہ دے رہے ہیں کہ یہ کام ضمنی الیکشن کے بعد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ تاہم اگلے تین چار روز میں اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کر لیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق اسی طرح مریم نواز کے سمدھی چوہدری منیر کے خلاف بھی تحقیقات کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ایف بی آر کو اس سلسلے میں بھی وزیر اعظم ہائوس سے ٹاسک دیا جا چکا ہے۔ رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے چوہدری منیر ’’ٹیکنیکل ایسوسی ایٹ پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ‘‘ نامی کنسٹرکشن کمپنی کے مالک ہیں۔ اس وقت ملک کے مختلف شہروں میں اس کمپنی نے ٹھیکے لے رکھے ہیں۔ ذرائع کے مطابق چوہدری منیر کے خلاف اسلام آباد کے نئے ایئرپورٹ کے ٹھیکے میں ہونے والی بے قاعدگیوں کے حوالے سے تحقیقات شروع کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
ادھر اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک کی ایلیٹ بزنس کمیونٹی کو بھی یہ سُن گُن مل گئی ہے کہ میاں منشا اور چوہدری منیر پر ہاتھ ڈالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ جس پر کاروباری برادری میں خوف پایا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق جب بزنس کمیونٹی پر ہاتھ ڈالا جائے تو وہ بڑے پیمانے پر اپنا پیسہ باہر لے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی یہی ہو رہا ہے۔ بڑے کاروباری حضرات نے مارکیٹ سے بڑے پیمانے پر ڈالر خریدنے شروع کر دیئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مارکیٹ میں ڈالر مزید شارٹ ہو گیا ہے۔ اگر میاں منشا یا چوہدری منیر کو تحقیقات کے لئے گرفتار کر لیا جاتا ہے تو پھر پاکستانی کاروباری برادری میں بے یقینی مزید بڑھ جائے گی۔
بزنس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ایک سابق ہمدرد کے مطابق بزنس کمیونٹی کے کان، منسٹری کے اندر ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ حکومتی ارادوں سے پوری طرح واقف ہوتی ہے۔ جلد بازی میں جس طرح کے اقدامات حکومت اٹھانے جا رہی ہے اور دوسری جانب مختلف وزرا کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ بیانات کا جو سلسلہ جاری ہے، اس سے بزنس کمیونٹی میں خوف کے علاوہ بے یقینی بھی پائی جاتی ہے۔ جبکہ معیشت کو کھڑے ہونے کے لئے سیاسی استحکام چاہئے ہوتا ہے۔ بزنس کمیونٹی کے رکن کے مطابق تاجر برادری حیران ہے کہ معیشت سے متعلق بیانات وزیر خزانہ اسد عمر سے زیادہ غیر متعلقہ وزیر یا حکومتی ارکان دے رہے ہیں۔ جس سے بے یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ علی زیدی نے یہ بیان داغ کر مزید اضطراب پیدا کر دیا ہے کہ ڈالر ایک سو چالیس روپے تک جا سکتا ہے، جو اوپن مارکیٹ میں 136 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح وزیر اطلاعات فواد چوہدری یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ پاکستان کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر ڈیڑھ ماہ کے رہ گئے ہیں۔ حکومت کی طرف سے اس طرح کے بیانات سے بزنس کمیونٹی میں بے یقینی بڑھ رہی ہے۔ کاروباری برادری کے اہم رکن کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لینے کے اعلان کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کا رجحان آیا تھا۔ لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے یہ تازہ بیان آنے کے بعد کہ پاکستان نے بیل آئوٹ پیکیج کے لئے اب تک رابطہ نہیں کیا، پھر غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف عہدیدار مورس اوبسٹ فیلڈ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو مختلف شعبوں میں عدم توازن کا سامنا ہے۔ سالانہ خسارہ بہت بڑھ چکا۔ کرنٹ اکائونٹ بھی بری طرح متاثر ہے۔ جبکہ زر مبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر ہیں۔

Comments (0)
Add Comment