سید ارتضی علی کرمانی
آپؒ کا ایک اور دیوانہ مجذوب بھی تھا، یہ مجذوب آپ کی مسجد کے باہر پڑا رہتا تھا۔ جب نمازوں کے لیے مسجد میں تشریف لاتے تو آتے جاتے آپ کی زیارت کر لیا کرتا تھا اور کبھی کبھی سفر میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے پہنچ جاتا تھا۔ حضرت صاحب نے سال بھر میں دو سفر مقرر فرما رکھے تھے، ایک سیال شریف اور دوسرا پاک پتن شریف کا۔
ایک مرتبہ پاک پتن میں خانقاہ کے شمالی دروازے کی سیڑھیوں میں حضرت صاحبؒ کی گزرگاہ پر پڑا ہوا تھا، جب حضرت صاحب کا مریدوں کے جم غفیر کے ہمراہ ادھر سے گزر ہوا تو اٹھ کر بیٹھ گیا اور عرض کیا ’’پیر جی، ہمارا اعتقاد آپ سے اٹھ گیا ہے۔‘‘ حضرت صاحب ایک طویل سانس لیکر بولے ’’میاں دعا کرو، میرا اعتقاد تم پر سے نہ اٹھ جائے۔‘‘ اکثر اہل دل حضرات یہ کلام سن کر بے اختیار رو دیئے کہ سلوک کا کتنا بڑا مسئلہ کس قدر آسان لفظی طریقہ سے حل کر دیا گیا ہے۔
ڈیرہ غازی خان میں آپ کی ملاقات ایک فقیر سے ہوئی۔ حضرت صاحبؒ فرماتے ہیں کہ ’’وہ فقیر بڑا صاحب کشف تھا اور واقعات کونیہ کی اطلاع پہلے دے دیا کرتا تھا۔ میرے متعلق اس نے کئی پیش گوئیاں کیں، جو پوری ہو رہی ہیں اور اس کے مکاشفات ہمیشہ درست ثابت ہوتے رہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان سے ملتان آتے وقت وہ میرے ساتھ ہو لیا۔ غازی گھاٹ سے ہم جہاز میں سوار ہو کر دریائے سندھ کو عبور کر رہے تھے کہ ایک عورت کافی فاصلہ پر دودھ کا برتن لیے مشک پر تیرتی نظر آئی۔
میری توجہ ایک لمحہ کے لیے ادھر ہوگئی اور خیال آیا کہ یہ عورت اپنے کام میںکیسی باہمت ہے۔ معاً وہ فقیر تالی بجا کر کہنے لگا کہ ’’وہ تار ٹوٹ گئی۔ تار ٹوٹ گئی‘‘ اس کے کہنے کا مطلب تھا کہ تمہاری توجہ ذکر الٰہی کے شغل سے ہٹ گئی اور اس عورت کے کام کی طرف مبذول ہوگئی ہے۔ پھر وہ جہاز میں ہی کہنے لگا کہ خدا تعالی تمہیں بھگی میں لے جائیں گے اور مجھے پیدل چلائیں گے۔ بابا تم اس کے لاڈلے جو ہوئے۔ تاہم ریل گاڑی میں اکھٹے سفر کریں گے۔
میں نے کہا کہ نہیں، ہم دونوں بھگی میں سفر کریں گے۔ میرے پاس کرایہ دینے کے لیے رقم ہے۔ وہ بولا کہ پیسے تو میرے پاس بھی ہیں مگر خدا کی مرضی یہی ہے کہ میں پیدل چلوں۔ جہاز سے اتر کر میں نے ایک اچھا سا تانگہ دیکھا اور اس میں سوار ہوگیا۔ اس فقیر سے کہا کہ میرے برابر اگلی سیٹ پر بیٹھ جاؤ۔ مگر اس کے بیٹھے سے قبل ہی ٹانگہ سواریوں سے بھر گیا۔
آخر اس کو ریلوے اسٹیشن تک پیدل ہی چلنا پڑا۔ ریل گاڑی تیار تھی۔ میں پہلے پہنچ چکا تھا اور میرے دل میں خیال آیا کہ اب تو اس فقیر کا کشف ضرور غلط ثابت ہوگا۔ مگر معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ انجن میں کچھ فنی خرابی پیدا ہوگئی ہے۔ جس کی وجہ سے گاڑی دو گھنٹے دیر سے چلے گی۔ اتنی دیر میں وہ فقیر ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گیا اور سیدھا میرے پاس ڈبے میںآگیا جیسے ہی وہ میرے پاس پہنچا، گاڑی چل پڑی۔
میں بڑا حیران ہوا اور اس فقیر کی عزت میرے دل میں بہت بڑھ گئی۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ یہ نعمت تم کو کس طرح حاصل ہوئی۔ کیونکہ تمہارے کسب کا نتیجہ تو معلوم نہیں ہوتی۔ وہ کہنے لگا کہ
’’میں پولیس میں سپاہی تھا۔ ایک مرتبہ ہم دو سپاہی ایک گرفتار شدہ ملزم کو حراست میں لیے جا رہے تھے کہ اثنائے راہ ایک قبرستان آیا۔ جہاں ایک شکستہ سی قبر پر وہ ملزم دعا مانگنے کے لیے رکا۔ میں نے کہا کہ جیسی قبر کی حالت ہے ویسی ہی قبر والے کی حالت بھی ہوگی۔ کیوں وقت ضائع کررہے ہو۔ جلدی چلو۔ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ صورت شخص نظر آیا اور مجھے حضرت جیلانیؒ کی خدمت میں لے گئے۔ میری سفارش کی اور دعا کروائی۔ پھر مجھ سے کہا کہ میاں ہماری قبر تو ٹوٹی پھوٹی سہی مگر تمہارا کام تو بنا دیا۔ صبح جب بیدار ہوا تو صاحب کشف تھا۔ اسی روز ہی ملازمت سے استعفیٰ دیا اور آزاد ہو گیا۔‘‘
حضرت صاحبؒ نے ایک مرتبہ دوران درس فقیر کے متعلق مزید حالات سے آگاہ فرمایا۔ اور بتایا کہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ آخری عمر میں گولڑہ ضرور آئے گا اور مجھے ضرور ملے گا۔ ابھی تک وہ نہیں آیا۔ اس وقت میری عمر 70 برس سے اوپر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ ضرور آئے گا۔ کیوں کہ میں نے کبھی اس کے منہ سے کوئی غلط بات نہیں سنی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭