معارف القرآن

معارف و مسائل
اَلَّا تَطْغَوا… الخ: پہلی آیت میں جو میزان پیدا کرنے کا ذکر تھا، اس جملے میں اس کے مقصد کو واضح کیا گیا ہے۔ تطغوا، طغیان سے مشتق ہے، جس کے معنی بے انصافی اور ظلم کے ہیں، مراد یہ ہے کہ میزان کو حق تعالیٰ نے اس لئے بنایا کہ تم وزن میں کمی بیشی کر کے ظلم و جور میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔
وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ … قسط کے لفظی معنی انصاف کے ہیں، مراد ظاہر ہے کہ وزن کو ٹھیک ٹھیک قائم کرو انصاف کے ساتھ۔ خسر کے معنی وزن میں کمی کرنے کے ہیں، جو بات پہلے جملے میں مثبت انداز سے بیان کی گئی ہے، یہ اسی کا منفی پہلو ہے کہ وزن میں کم تولنا حرام ہے۔
وَالْاَرْضَ وَضَعَھَا… انام بالفتح بروزن سحاب، ہر جاندار کو کہا جاتا ہے جو زمین پر رہتا چلتا ہے، (قاموس) بیضاوی نے ہر ذی روح اس کا ترجمہ کیا ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اس آیت میں انام سے مراد انسان اور جنات ہیں، کیونکہ کل ذی روح ارواح میں سے یہی دونوں احکام شرعیہ کے مکلف اور مامور ہیں اور اس سورت میں بار بار انہی دونوں کو خطاب بھی کیا گیا ہے، جیسا کہ فبای آلائ… میں یہی دونوں جن وانس مخاطب ہیں۔
فاکہہ ہر ایسے میوے اور پھل کو کہا جاتا ہے جو عادۃً غذا کے بعد تفریحاً کھایا جاتا ہے۔ اکمام، کم بالکسر کی جمع ہے، جس کے معنی اس غلاف کے ہیں، جو کھجور وغیرہ کے پھلوں پر ابتداء میں چڑھا ہوتا ہے۔
وَالْحَبّْ … لفظ حب بفتح حاء و تشدید باء دانے یعنی غلے کو کہا جاتا ہے، جیسے گندم، چنا، چاول، ماش، مسور وغیرہ اور عصف اس بھوسے کو کہتے ہیں جس کے اندر پیک کیا ہوا دانہ بقدرت خداوندی وحکمت بالغہ پیدا کیا جاتا ہے، عصف یعنی بھوسے کے غلاف میں پیک ہو کر خراب ہواؤں اور مکھی مچھر وغیرہ سے پاک و صاف رہتا ہے، دانے کی پیدائش کے ساتھ ذو العَصفِ کا لفظ بڑھا کر غافل انسان کو اس طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ یہ روٹی، دال وغیرہ جو وہ دن میں کئی کئی مرتبہ کھاتا ہے، اس کا ایک ایک دانہ مالک و خالق نے کیسی کیسی صنعت عجیبہ کے ساتھ مٹی اور پانی سے پیدا کیا اور پھر کس طرح اس کو حشرات الارض سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک ایک دانے پر غلاف چڑھایا، جب وہ تمہارا لقمہ تر بنا، اس کے ساتھ شاید عصف کو ذکر کرنے سے ایک دوسری نعمت کی طرف بھی اشارہ ہو کہ یہ عصف (بھوسہ) تمہارے مویشی کی غذا بنتا ہے، جن کا تم دودھ پیتے ہو اور سواری و بار برداری کی خدمت ان سے لیتے ہو۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment