ایس اے اعظمی
متحدہ عرب امارات کی ایک عدالت نے شوہر کی جاسوسی کرنے پر خاتون کو جیل بھجوانے کے احکامات دیئے ہیں، جہاں شوہر کے موبائل فون کو ہر روز چیک کرنے پر خاتون کو تین ماہ کیلئے قید رکھا جائے گا۔ اس خاتون کو عدالت نے متنبہ کیا ہے کہ وہ مستقبل میں ایسی کسی بھی حرکت سے باز رہے، کیونکہ اماراتی قوانین کے تحت کسی کا بھی لیپ ٹاپ، موبائل یا کمپیوٹر اس کی اجازت کے بغیر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ کوئی بھی شوہر اپنی اہلیہ کا موبائل فون اس کی اجازت کے بغیر نہ تو اٹھا کر دیکھ سکتا ہے اور نہ اس کا ڈیٹا کاپی یا ٹرانسفرکرنے کا حق رکھتا ہے۔ مقامی جریدے امارات الیوم سے گفتگو میں معروف قانونی ماہر اور وکیل رعد الاولاکی نے بتایا ہے کہ امارات میں شخصی پرائیویسی انتہائی اہم ہے۔ سائبر قوانین کے تحت اماراتی سرزمین پر کوئی بھی بیوی اپنے شوہر اور کوئی بھی شوہر اپنی زوجہ کی اجازت و رضامندی کے بغیر اس کا کمپیوٹر، ٹیبلٹ، موبائل فون یا لیپ ٹاپ استعمال نہیں کرسکتا۔ نئے سائبر قوانین یہ بھی باور کراتے ہیں کہ امارات میں رہائش پذیر کوئی بھی والدین اپنی جوان یا بالغ اولادوں کا فون، کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ نہیں کھول سکتے، کیونکہ یہ شخصی پرائیویسی کیخلاف عمل اور قابل سزا ہے۔ ایسا کرنے والوں کیلئے قوانین کے تحت کم از کم تین ماہ اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک جیل یاترا سمیت ڈیڑھ لاکھ سے پانچ لاکھ درہم جرمانہ کی سزا یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ اماراتی پولیس اور سائبر کرائم افسران نے تمام شہریوں کو کہا ہے کہ اگر ان کو اپنے شوہروں یا بیویوں کے بارے میں شکوک ہیں کہ وہ غیر اخلاقی سرگرمیوں یا بے وفائی کے مرتکب ہو رہے ہیں تو انہیں لڑائی جھگڑا یا جاسوسی کرنے کے بجائے قریبی پراسکیوٹرز آفس جاکر تحریری شکایات درج کروانی چاہئے، تاکہ ان کی شکایات کا جائزہ لینے کیلئے پولیس افسران شوہر یا بیوی کو طلب کرکے تفتیش کریں۔ اگر وہ مواد، ویڈیوز، چیٹ ہسٹری یا کوئی بھی متنازع ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیا گیا ہوگا تو اس موبائل یا الیکٹرونک ڈیوائس کا فارنسک تجزیہ کروایا جائے گا اور ڈیٹا ریکور کیا جائے گا اور تمام چھان بین کے بعد ایکشن لیا جائے گا۔ لیکن کوئی بھی شہری اس سلسلے میں خود ’’جیمز بانڈ‘‘ بننے کی کوشش ہرگز نہ کرے۔ کیونکہ ایسا کرنا ریاستی قوانین کے تحت جرم/ سائبر کرائم تصور کیا جائے گا۔ شوہر کی جاسوسی کے انوکھے کیس کے بارے میں مقامی جریدے خلیج ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ اماراتی عدالت میں اس خاتون نے اپنے وکیل کے توسط سے موقف اختیار کیا تھا کہ اس نے شوہر کی جاسوسی ہرگز نہیں کی، البتہ جب ایک مرتبہ اس نے اپنے شوہر کو رات کے وقت کسی دوسری خاتون کے ساتھ چیٹنگ کرتے دیکھا اور پکڑلیا تھا تو اس کے شوہر نے نہ صرف اس سے معافی طلب کی تھی، بلکہ اپنے موبائل کا پاس ورڈ بھی بطور ضمانت دیا تھا کہ وہ جب چاہے اس کا فون چیک کر سکتی ہے اور اس امر کا اطمینان کرسکتی ہے کہ اس کا شوہر دوسری خواتین سے ربط و ضبط نہیں رکھتا۔ خاتون نے سماعت کے دوران تسلیم کیا ہے کہ اس نے اپنے شوہر کی باتوں، دوسری خواتین سے گفتگو اور لڑائی جھگڑوں سے تنگ آکر اس کے موبائل کا پاس ورڈ استعمال کرتے ہوئے تمام ڈیٹا اپنے موبائل میں جدید سافٹ ویئر کی مدد سے ٹرانسفر کیا تھا، تاکہ کسی بھی مرحلے پر گھر والوں اور احباب کو اپنے شوہر کی اصل تصویر دکھائی جاسکے۔ لیکن خاتون کے اس استدلال کو عدالتی جج نے مسترد کر دیا اور کہا ہے کہ اماراتی قوانین کے تحت کسی اور فرد کی ڈیوائس کا بغیر اجازت استعمال اور اس کی ڈیوائس سے ڈیٹا کاپی کرنا سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کی پاداش میں اسے تین ماہ قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔ خاتون کو عدالتی احکامات پر پولیس اسکارٹ نے راس الخیمہ جیل پہنچا دیا ہے۔ خلیج ٹائمز نے بتایا ہے کہ واقعہ راس الخیمہ کی ریاستی عدالت میں سنا گیا جہاں اماراتی شوہر کا موقف تھا کہ ایک شب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی آرام سے بیٹھی اس کا موبائل فون دیکھ رہی ہے۔ اس نے جب استفسار کیا اور جواب طلبی کی تو موصوفہ نے اسے بے ربط کی سنائیں اور بے رُخا اور بے وفا قرار دیا۔ اس پر شوہر کے غصہ کی کوئی حد نہ رہی اور اگلی صبح کام پر جانے کے بجائے پولیس اسٹیشن پہنچ گیا اور بیوی کی جاسوسی کے بارے میں تمام معلومات کے ساتھ شکایات درج کرادیں۔ راس الخیمہ پولیس نے اس انوکھے کیس پر شوہر کی جانب سے شکایات ملنے کے بعد خاتون کو فون کرکے پولیس اسٹیشن بلوایا، جہاں اس سے اس کیس میں تفتیش کی گئی تو خاتون نے جاسوسی کا الزام مسترد کر دیا لیکن دعویٰ کیا کہ اس کو موبائل کا پاس ورڈ اس کے شوہر ہی نے دیا تھا۔ لیکن پولیس افسران نے اس سلسلے میں قانونی نکات پر بحث کرکے معاملے کو عدالت میں پیش کردیا اور خاتون کو گرفتار کرکے عدالتی چالان پیش کردیا، جہاں معزز جج نے ایک ہی سماعت میں اس کیس کو منطقی انجام تک یہ کہہ کر پہنچا دیا کہ اماراتی قوانین کے تحت سائبر کرائم سنگین جرم ہے اور خاتون کو کوئی حق حاصل نہیں تھا کہ شوہر کا پاسورڈ استعمال کرتی۔ اماراتی جریدے ’’دی نیشنل‘‘ نے ایک رپورٹ میں یاد دلایا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں انصاف کا نظام بغیر کسی تفریق کے کام کرتا ہے، جس کے تحت کوئی بھی فرد امارات میں پبلک پلیس پر کسی کی تصویر یا ویڈیو بغیر اجازت نہیں بنا سکتا اور ایسا کرنے کا مرتکب مستوجب سزا ہوتا ہے۔ جریدے نے انکشاف کیا ہے کہ اگست2018ء میں امارات کے حکمراں شیخ خلیفہ نے نئے سائبر قوانین متعارف کروائے ہیں، جس میں سخت ترین سزا پچیس سال قید اور لاکھوں درہم ہے۔
٭٭٭٭٭