محمد قاسم
افغان طالبان نے افغانستان میں 20 اکتوبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو بزور قوت روکنے کی دھمکی دیتے ہوئے عوام سے الیکشن والے روز گھروں میں رہنے کی اپیل کردی ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ انتخابات کو ناکام بنانے کیلئے بھرپور کوششیں کریں گے۔ افغان طالبان نے انتخابات کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی قبضے کے دوران آزادانہ و منصفانہ الیکشن ممکن نہیں ہے۔ واضح رہے کہ طالبان نے چند روز قبل ہلمند میں ایک انتخابی ریلی کو نشانہ بنایا تھا، جس میں ایک امیدوار صالح اچکزئی اپنے آٹھ ساتھیوں سمیت مارے گئے تھے۔ طالبان نے دھمکی دی ہے کہ وہ الیکشن کے روز کارروائیاں کریں گے، اس لئے عوام انتخابی عمل سے دور رہیں۔ اس حوالے سے افغان طالبان کے میڈیا کمیشن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسی حالت میں کہ امریکی فوجیں ملک پر قابض ہیںاور امریکہ افغان عوام کو کچلنے کیلئے مختلف اقسام کا اسلحہ آزما رہا ہے۔ قتل عام، بمباری اور لوٹ مار جاری ہے۔ اسلام کے شیدائی اور محب وطن افغانوں کیلئے امریکہ مزید عقوبت خانے بنا رہا ہے۔ جبکہ اس افسوسناک صورتحال سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے پارلیمانی انتخابات کے نام سے ایک نیا ڈرامہ شروع کیا گیا ہے۔ امریکی جارحیت کے 17 برسوں میں ہم نے الیکشن کے نام سے متعدد پروجیکٹ دیکھے، لیکن ان میں سے ایک بھی ملک و ملت کیلئے کارآمد ثابت نہیں ہوا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ استعمار کے زیر کنٹرول ممالک میں الیکشن کا ڈرامہ محض اس لئے رچایا جاتا ہے کہ غلامی کے استعماری ہتھکنڈوں کو قانونی جواز فراہم کیا جا سکے۔ طالبان قیادت کا خیال ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال ایسی نہیں کہ وہاں آزادانہ و منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکے۔ دوسری جانب اہل وطن اور عالمی برادری سمیت سب ہی اعتراف کر رہے ہیں کہ ملک کے نصف سے زائد رقبے پر طالبان کا کنٹرول ہے اور باقی اکثریتی علاقوں میں بھی ان کا کافی اثرورسوخ ہے۔ ایسے میں انتخابی ڈرامہ صرف صوبائی مراکز اور شہروں میں نمائشی طور پر رچایا جائے گا۔ جبکہ دنیا کو یہ باور کرایا جائے گا کہ امریکی سفیر انتخابی عمل کی براہ راست نگرانی کررہا ہے۔ جبکہ درحقیقت جماعتی اور قومی تعصبات، جعلسازی اور ووٹوں کی علی الاعلان خریدوفروخت سمیت سازشوں کے ذریعے من پسند نتائج حاصل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس صورتحال میں ایمان اور ضمیر کا تقاضا یہی ہے کہ اس منصوبے کو مردود تصور کیا جائے اور اس کے سدباب کیلئے جدوجہد کی جائے۔ طالبان پارلیمانی انتخابات کے اس منصوبے کو افغان ملت کو دھوکہ دینے کی ایک سازش سمجھتے ہیں۔ طالبان، افغان عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ الیکشن کا مکمل طور پر بائیکاٹ کریں اور کسی طور انتخابی عمل میں حصہ نہ لیں۔ جبکہ انتخابی امیدواروں کو بھی بتانا چاہتے ہیں کہ استعمار کے زیر سایہ دین، ملت اور ملک کی خدمت نہیں کی جاسکتی۔ بلکہ الیکشن میں تمہاری کامیابی سے براہ راست امریکی جارحیت کو نفع پہنچتا ہے اور استعمار کے نمائشی منصوبے اور سازشیں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ لہذا تمام امیدوار اس امریکی منصوبے میں شرکت سے گریز کریں۔ بیان کے مطابق طالبان قیادت کی جانب سے تمام مجاہدین کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ افغان شہریوں کی زندگی اور مال کے تحفظ پر توجہ دیتے ہوئے ملک بھر میں اس امریکی پروجیکٹ کی روک تھام کیلئے کوشش کریں اور انتخابات کے انعقاد میں شدید رکاوٹیں کھڑی کریں۔ وہ افراد جو اس پروجیکٹ کی کامیابی کیلئے کوشاں ہیں اور جو لوگ سیکورٹی کی مد میں تعاون کررہے ہیں، انہیں ٹارگٹ بنائیں اور پوری قوت سے اس امریکی سازش کو ناکام کردیں۔ طالبان میڈیا کمیشن کے بیان میںکہا گیا ہے کہ ہم الیکشن کے منصوبہ سازوں کو ایک بار پھر بتاتے ہیں کہ ملک کے موجودہ بحران کا بنیادی حل افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کا انخلا اور یہاں ایک اسلامی حاکمیت کا اعادہ کرنا ہے۔ جبکہ امریکی زیر سایہ ہونے والے انتخابات افغان عوام اور ملک کی قسمت نہیں بدل سکتے۔
دوسری جانب افغان حکومت کی جانب سے انتخابی ڈیوٹی کیلئے 54 ہزار سیکورٹی اہلکار تعینات کرنے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔ جبکہ امریکہ نے اپنے فضائی اور زمینی دستوں کو الرٹ رہنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کیلئے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد افغان انتخابات میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں اور انہوں نے افغان حکومت کو یہ گائیڈ لائن بھی دی ہے کہ جنگجوئوں کے بجائے سیاسی پارٹیوں کو انتخابات میں موقع دینا چاہیے اور ان کی سیکورٹی حکومت کی ذمہ داری ہے، تاکہ افغانستان کے مسئلے کا حل پارلیمان کے ذریعے نکالا جاسکے۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ امریکی حکام افغان پارلیمان کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنا چاہتے ہیں۔ قوی امکان ہے کہ 20 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات میں حزب اسلامی اور اس کے اتحادی پارلیمان میں اکثریت حاصل کرلیں گے۔ تاہم زیادہ تر امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ پختون علاقوں میں طالبان کے اثرورسوخ اور دھمکیوں کے بعد شمالی اتحاد کو بھی انتخابات میں اپنے اہم امیدواروں کی کامیابی کی امید ہے، کیونکہ شمالی اتحاد کے زیر اثر علاقوں میں افغان طالبان کا اثر انتہائی کم ہے ۔
٭٭٭٭٭