سرفروش

عباس ثاقب
اس خاندان کے مخاصمانہ تیوروں سے جان چھڑانے کے بعد میں نے انہیں نظر انداز کرکے ایک کتاب کھول لی اور خود کو مطالعے میں مشغول کرنے کی کوشش کی۔ بمبئی کے مضافات پیچھے چھوڑنے کے بعد گاڑی نے رفتار پکڑلی تھی۔ بچے بھی ابتدائی جوش و خروش دھیما پڑنے پر اب پرسکون ہوگئے تھے اور اب دوستانہ انداز میں کھڑکی سے باہر بھاگتے دوڑتے مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
اس دوران میں ساس اور بہو تو کبھی کبھار ہی آپس میں باتیں کر رہی تھیں، البتہ باپ بیٹے کے درمیان سیاست اور معاشی مسائل سے لے کر زمین جائیداد تک کے معاملات پر مسلسل گپ شپ چل رہی تھی۔ کانوں میں پڑنے والی باتوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ بشن دیپ بمبئی میں چاولوں کی تجارت سے وابستہ ہے، جبکہ بڑے صاحب یعنی براہم دیپ سنگھ چھاجلی نامی قصبے کے مضافات میں کئی مربع زرعی زمین کے مالک ہیں، جسے ان کا بڑا بیٹا سنبھالتا ہے۔ بزرگ سردار اور سردارنی اپنے بیٹے بشن دیپ کے پاس دو مہینے گزارنے کے بعد اس کے اہل خانہ کو ساتھ لے کر گاؤں واپس جا رہے ہیں۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہو رہا تھا کہ بشن دیپ اپنے بڑے بھائی امر دیپ کے لیے محبت آمیز احترام کے جذبات رکھتا ہے اور اسی کی فرمائش پر ایک ماہ کے لیے گاؤں جارہا ہے۔
میں انہیں ان کے حال پر چھوڑکر اپنے آئندہ لائحہ عمل پر غور کرنے لگا۔ مجھے بٹھنڈا سے بچنے کے لیے مانسا کے چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر اترنا تھا۔ لیکن میرے اندازے کے مطابق ٹرین رات کے تیسرے پہر وہاں پہنچے گی۔ مجھے یہ الجھن درپیش تھی کہ اتنی دیر رات گئے میں سردی میں کہاں پناہ ڈھونڈوں گا۔ اتنے چھوٹے سے قصبے میں کسی ہوٹل یا مسافر خانے کی تو قع تو عبث ہی تھی۔ ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ گھر اور اسٹیشن ماسٹر کے مشترکہ کمرے کے علاوہ کوئی سر چھپانے کی جگہ نہیں تھی۔ خدا جانے وہاں سے بس اڈے جانے کے لیے کوئی سواری ملے گی بھی یا نہیں۔ اور اڈے پر پہنچنے کے بعد صبح تک کا انتظار کرنا پڑ گیا تو میں کیسے پنجاب کی برفیلی رات گزاروں گا۔
جب میں اپنے ان وسوسوں اور اندیشوں کا کوئی مناسب حل نہ ڈھونڈ پایا تو حسبِ معمول مسئلے کو اللہ رب العزت کی مدد کے آسرے پر جوں کا توں چھوڑدیا۔ اس دوران میں سردار باپ بیٹا آپس میں باتوں سے غالباً اوبھ گئے تھے اور اب بشن دیپ سنگھ سیٹ سے سر ٹکائے اونگھ رہا تھا۔ مجھے متوجہ پاکر بزرگ سردار جی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ انہوں نے بلا تکلف ٹھیٹھ پنجابی میں مخاطب کیا۔ ’’بیٹا ناراض نہ ہو تو پوچھ سکتا ہوں کہ تمہارانام کیا ہے اور تمہاری منزل کون سی ہے؟‘‘۔
میں نے پنجابی ہی میں خندہ پیشانی سے جواب دیا۔ ’’جی میرا نام تیغ بہادر سنگھ ہے۔ میں لندن میں رہتا ہوں۔ دو ماہ پہلے ہندوستان آیا تھا اور اب زندگی میں پہلی مرتبہ پنجاب جارہا ہوں‘‘۔
میری بات سن کر حیرت سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ اس نے بے یقینی سے مجھے دیکھا اور پھر تصدیق چاہی۔ ’’بیٹا تم واقعی سردار ہو؟‘‘۔
میں نے قدرے تیز لہجے میں کہا۔ ’’جی ہاں، مجھے جھوٹ بولنے کی عادت نہیں ہے۔ یہاں ہر کوئی میری بات پر شک کرتا ہے۔ میری پیدائش انگلینڈ کی ہے اور میرے والد نے سرداروں والا حلیہ یا مذہب اپنانے پر کبھی مجبور نہیں کیا۔ اگر ان کی وصیت نہ ہوتی تو میں کبھی ہندوستان نہ آتا‘‘۔
میرے لہجے میں ناراضی کی جھلک محسوس کر کے وہ کچھ بوکھلا گیا۔ ’’بیٹا، ناراض کیوں ہوتے ہو۔ برا لگا ہے تو معافی دے دو۔ ہمارے ہندوستان میں بھی بہت سارے مونے (شیو کرنے اور بال کٹوانے والے) سکھ ہیں۔ بہت سے مذہبی تعلیمات پر بھی برائے نام عمل پیرا ہوتے ہیں۔ خود میرا بھی یقین ہے کہ اصل دھرم تو انسانیت ہے‘‘۔
اسے دل شکنی کے احساس سے شرمندہ پاکر میں نے کہا۔ ’’نہیں، نہیں بزرگوار۔ معافی مانگ کر مجھے شرمندہ نہ کریں۔ میں آپ پر ناراض نہیں ہوں۔ بس ایسے ہی لوگوں کا رویہ یاد آگیا تھا۔ مجھے پتا ہے میں برائے نام سکھ ہوں۔ لیکن مجھے اپنے باپ کی دی ہوئی پہچان پر فخر ہے۔ وہ بٹوارے سے بہت سال پہلے لاہور سے لندن چلے گئے تھے۔ لیکن انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے بعد اپنے آپ کو ہمیشہ ہندوستانی سمجھا اور غیر ملک میں مقیم ہندوستانی کی حیثیت سے اپنی شناخت کروائی‘‘۔
براہم دیپ سنگھ جی میری بات سن کر کچھ جذباتی ہوگئے۔ ’’تمہارا باپ بہت عظیم تھا بیٹا، جو ولایت کی دھرتی پر ہندوستان کی محبت کا دم بھرتا رہا۔ ورنہ اب تو خود ہندوستان میں رہنے والے بہت سے سکھ اپنے الگ دیس کے لیے آواز اٹھانے لگے ہیں‘‘۔
میں جانتا تھا کہ بشن دیپ سنگھ بھی ہماری گفتگو کے آغاز ہی میں بیدار ہو چکا ہے اور دلچسپی سے ہماری گفتگو سن رہا تھا۔ اس مرحلے اس نے مداخلت کی ’’پتا جی، آپ کو کتنی بار سمجھایا ہے کہ یہ دیش بھگتی (حب الوطنی) کا راگ اب چھوڑ دو۔ آپ جیسے بزرگوں کی غلطی کی سزا ہمارے بچے جانے کتنے عشروں تک بھگتیں گے‘‘۔
بشن دیپ کی اچانک مداخلت اور طنزیہ لہجے میں مخالفانہ بات سے اس کا باپ کچھ شرمندہ ہوگیا۔ ’’بیٹا، ہم نے جوکچھ کیا، اچھی نیت سے کیا تھا۔ اس وقت کی صورتِ حال کا یہی تقاضا تھا۔ اس بچے کے سامنے تو ایسی بات نہ کرو۔ یہ بھی سکھ بچہ ہے، جو لندن سے پہلی بار ہندوستان دیکھنے آیا ہے‘‘۔
بشن دیپ نے اپنا لہجہ نرم کرتے ہوئے کہا۔ ’’پتا جی، اس جوان کو تو سچائی بتانا اور بھی ضروری ہے، تاکہ یہ دیش بھگتی کے کھوکھلے نعروں میں پھنسنے سے پہلے ہی عقل سیکھ لے۔ اسے بھی اپنے بزرگوں کی غلطی کا پتا لگ جائے‘‘۔
میں نے معصومیت سے پوچھا۔ ’’کیسی غلطی بشن جی؟‘‘۔
اس نے مجھے دیکھا اور کہا۔ ’’بھائی تیغ بہادر، ہماری دھرتی پر کئی سو سال سے قابض انگریز اپنے حالات سے مجبور ہوکر اس دیس کا بٹوارا کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ جناح صاحب ہوشیار تھے۔ انہوں نے اپنی قوم کے لیے الگ وطن مانگ لیا۔ ہمارے بزرگ ہندوؤں کے جھانسے میں آکر ان کے ساتھ ہی لگ گئے اور اب ہندوستان میں اقلیت بن کر رہ رہے ہیں۔ اگر جناح صاحب کی طرح الگ قوم کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کرتے تو شاید آج سکھ قوم اپنے وطن میں آزادی کی زندگی گزار رہی ہوتی‘‘۔
وہ شاید اپنے باپ سے اس موضوع پر وقتاً فوقتاً بحث مباحثہ کرتا رہا ہوگا اور بوڑھا سکھ اس کی دلیلوں کا خاطر خواہ جواب دینے سے قاصر رہتا ہوگا، لہٰذا اس نے اس موقع پر بھی دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر اکتفا کیا۔ ’’اچھا چھوڑو اس بحث کو، کسی اور موضوع پر بچے سے بات کرتے ہیں۔ مجھے تو یہ اپنی عمر سے زیادہ سمجھ دار لگتا ہے‘‘۔
بشن دیپ بھی شاید بات بڑھانا نہیں چاہتا تھا، لہٰذا وہ مجھ سے میرے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے لگا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے پٹیالا ریاست کے تاریخی پس منظر کے بارے میں دلچسپ باتیں سنی ہیں اور اب وہاں منعقد ہونے والے کسی سالانہ میلے کا سن کر وہاں کی سیر کرنے جا رہا ہوں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment