مشہور عباسی خلیفہ مہدی کو سرور کائناتؐ سے بے انتہا عقیدت تھی، ایک مرتبہ ایک شخص رومال میں ایک جوتا لپیٹ کر لایا اور کہا کہ یہ حضور اکرمؐ کے نعل مبارک ہیں اور آپ کی خدمت میں لایا ہوں۔
مہدی نے اس کو لے کر بوسہ دیا اور آنکھوں سے لگایا اور لانے والے کو انعام و اکرام سے مالا مال کردیا، اس کے جانے کے بعد حاضرین سے مہدی نے کہا کہ میں خوب جانتا ہوں کہ اس جوتے پر آں حضرتؐ کی نگاہ بھی نہیں پڑی ہے، ان کا اس کو پہننا تو دور کی بات ہے، لیکن چوں کہ اس نے ذات نبویؐ کی طرف اس کا انتساب کردیا تھا، اس لیے اسے میں نے لے لیا۔ (مخزن اخلاق)
دنیا سے گریز!
کوفہ کی رہنے والی ام حسانؒ اپنے وقت کی برگزیدہ خاتون تھیں، حضرت ابن مبارکؒ اور حضرت سفیان ثوریؒ ان کی خدمت میں حاضر تھے، گھر میں معمولی چٹائی تھی، اس پر حضرت سفیان ثوریؒ نے فرمایا کہ اگر آپ صرف اپنے رشتے داروں سے کہیں تو شاید آپ کی اس حالت میں فرق آجائے۔
یہ سننا تھا کہ ام احسانؒ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور فرمانے لگیں: اے سفیان! تم آج تک میری نگاہوں میں بہت باعزت تھے اور میرے دل میں تمہارا احترام تھا، مگر تم جانتے ہی ہو کہ میں نے دنیا تو اس ذات سے بھی نہیں مانگی، جو اس دنیا کا حاکم ہے اور ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے، پھر میں کیسے ان لوگوں سے سوال کروں، جن کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے اور نہ ان کے قبضہ قدرت میں ایک تنکا ہی ہے۔
اور اے سفیان! خدا کی قسم! میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ میرے اوپر کوئی ایسا وقت گرزے کہ میں خدا کی یاد سے غافل رہوں۔
راوی کا بیان ہے کہ اس گفتگو کے بعد سفیان ثوریؒ کافی دیر تک روتے رہے۔ (کچھ دیر اہل حق کے ساتھ)
٭٭٭٭٭