حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں:
ایک آدمی اپنے گھر والوں کے پاس آیا، جب اس نے تنگی کی وجہ سے اپنے گھر والوں کی حالت دیکھی تو صحرا کی طرف نکل گیا اور اس کی بیوی چکی کی طرف گئی اور اس کو تنور کے پاس رکھ دیا۔ پھر تنور کو گرم کر کے کہا:
’’خدایا! ہمیں اس میں سے رزق دیجئے جو ہم پیستے، گوندھتے اور پکاتے ہیں۔‘‘
یہ کہنا تھا کہ اچانک پیالہ روٹیوں سے بھر گیا، جبکہ چکی پیس رہی تھی اور تنور بھی بھنی ہوئی چانپوں سے بھر گیا، اس کے شوہر نے آکر پوچھا ’’ تمہارے پاس کچھ ہے؟‘‘
بیوی نے کہا: ’’حق تعالیٰ نے ہمیں رزق دے دیا۔‘‘
چنانچہ شوہر نے چکی کی پاٹ اٹھا کر اس کے گرد جھاڑو لگا دی، جس سے چکی بند ہو گئی (بعد میں انہوں نے رسول اقدسؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ بیان کیا) تو آپؐؐ نے فرمایا: ’’اگر تم اس کو نہ اٹھاتے تو قیامت تک یہ چلتی رہتی۔‘‘
قدرت الٰہی کا عجیب کرشمہ
زبیر بن بکارؒ فرماتے ہیں: ’’مجھے محمد بن صحاک نے کہا:
’’ابو عزہ حمصی جو زمانہ جاہلیت میں شاعر رہ چکے ہیں، انہیں برض کا مرض لا حق ہوگیا۔ قریش کے لوگ نہ تو ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور نہ ہی ان کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ تنگ آکر کہا:
’’اس زندگی سے تو موت ہی بہتر ہے۔‘‘ سو وہ چھرا لے کر مکہ کی ایک گھاٹی میں گیا۔ پھر اس کو اپنے پہلو میں داخل کر دیا۔
چناں چہ وہ چھرا جلد اور جھلی کے درمیان میں پھنس گیا تو اس میں سے زرد رنگ کا پانی بہنے لگا اور وہ اسی لمحے برص سے شفایاب ہو گیا تو وہ کہنے لگا:
’’اے وائل اور نہد قبیلے اور لق و دق صحراء اور چٹیل پہاڑ کے رب! اور وہ رب جو نجد قبیلے کی اصلاح کرتا ہے، میں آپ کا فرماں بردار ہو گیا۔ آپ نے مجھے اس بیماری سے جو مجھے لاحق ہوئی تھی، شفایاب کیا، بعد اس کے کہ جب میں نے چھرا اپنی ہلاکت کے لیے اپنے پہلو میں مارا، لیکن آپ نے ذریعہ ہلاکت کو ذریعہ شفا بنا دیا۔(الفرج بعد الشدۃ)
٭٭٭٭٭