ایک خلیجی ملک میں پیش آنے والا یہ سچا واقعہ متعدد عرب رسائل و جرائد میں شائع ہو چکا ہے۔ یہ ایک ایسی روسی لڑکی کے قبول کی ایمان افروز داستان ہے، جس کے والدین اور خاندان کٹر عیسائی تھے، مگر رب کریم نے اس لڑکی پر کرم کر کے اس ایمان کی دولت سے نوازا۔ معروف سعودی اسلامی اور دینی داعی اسکالر الشیخ عبد الرحمن العریفی مدظلہٗ نے اپنے رسالے میں یہ واقعہ لکھا ہے:
’’خالد ایک باشرع اور خوبصورت نوجوان ہے۔ ایک دن وہ اپنی والدہ اور بہنوں کے ساتھ راستے سے گزر رہا تھا کہ ایک حیران وپریشان لڑکی ان کی طرف لپکی اور ان سے مدد مانگی۔ اس کی حالت دیکھ کر وہ اسے اپنے ساتھ گھر لے آئے، وہاں اس نے اپنی دکھ بھری کہانی کچھ یوں سنائی کہ وہ ایک روسی لڑکی ہے۔ روس کے ایک تاجر نے ایک خلیجی ملک میں قائم اپنی کمپنی میں نوکریوں کیلئے مقامی اخبار میں اشتہار چھپوایا۔
سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد روس کے معاشی حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے، اس لئے بہت سی غریب لڑکیوں نے اپنے نام لکھوا لئے۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس تاجر کی یہاں کوئی کمپنی نہیں تھی، وہ ملازمت کا جھانسہ دے کر غریب لڑکیوں کو جسم فروشوں کے ہاتھوں فروخت کرتا تھا۔ میں بھی چند دوسری لڑکیوں کے ساتھ نوکری کے لیے یہاں آئی تھی، یہاں آنے کے بعد اس تاجر نے اپنا گھناؤنا منصوبہ لڑکیوں کے سامنے رکھا، اس کے ناپاک ارادوں کو بھانپ کر میں اپنا پاسپورٹ اس سے کسی طرح نکلوا کر دوڑتی ہوئی کسی طرح شاہراہ پر آگئی، یہاں خوش قسمتی سے میری ملاقات آپ لوگوں سے ہوگئی۔‘‘
اس کی درد بھری کہانی سن کر اس عرب خاندان نے اسے اپنے گھر میں پناہ دینے کا ارادہ کیا، ان لوگوں نے اس کے سامنے اسلام کا تعارف رکھا اور اسلام کی دعوت صحیح ڈھنگ سے پیش کرنے کے لیے اسے ایک اسلامی کتب خانہ لے گئے، تاکہ وہ اسلامی کتابیں خرید کر اسلام کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرسکے، کتب خانہ والے کا کہنا ہے کہ جب یہ لوگ اس لڑکی کو میرے پاس لائے تو باقی عورتیں تو برقع میں تھیں، لیکن یہ روسی لڑکی برقع سے آزاد تھی اور چھوٹا لباس پہنے ہوئے تھی، وہ لوگ انگریزی زبان کی کچھ دینی کتابیں لے کر چلے گئے۔
کچھ ماہ بعد وہ فلسطینی نوجوان اور روسی دوشیزہ ایک بار پھر اسی کتب خانہ پر آئے، اس بار وہ لڑکی اسلام قبول کر چکی تھی اور پورے برقع میں تھی اور اس نوجوان کی شریک حیات بن چکی تھی۔
اس نوجوان (خالد) نے بتایا کہ میری بیوی نے بازار میں ایک برقع پوش کو دیکھا، جس کے جسم کا کوئی عضو ظاہر نہیں ہو رہا تھا، اسے دیکھ کر میری بیوی نے پوچھا کہ کیا اس کے جسم میں کوئی عیب ہے؟
میں نے اسے بتایا کہ یہ عورتیں اپنے اس عمل سے خدا کو خوش کرنا چاہتی ہیں۔ اس پر میری بیوی نے فوراً فیصلہ کیا کہ اگر خدا کی یہ پسند ہے تو میں آج سے اور ابھی سے برقع پہنوں گی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭