امت رپورٹ
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنے کاروباری معاملات کی نگرانی کیلئے لندن جانا چاہتے ہیں۔ مختلف ریفرنسز میں تحقیقی افسران سابق وزیر اعظم کو کلین چٹ دے چکے ہیں۔ تاہم بیرون ملک روانگی میں رکاوٹ ای سی ایل میں ان کے نام کی موجودگی ہے، جسے نکالنے کیلئے انہوں نے وزارت داخلہ کو درخواست دے دی ہے۔ ذرائع کے بقول چونکہ نواز شریف کو پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہے، لہذا اب وہ بیرون ملک اپنے کاروبار پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے رہائی کے بعد بہت کم سیاسی بیانات دیئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اب لندن سے اپنی پارٹی کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ان کی پاکستان میں موجودگی سے نواز لیگ کو کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔ وہ پارٹی کے کسی اجلاس میں شرکت کرسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر نے ای سی ایل سے اپنے نام نکالنے کیلئے وزارت داخلہ کو خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ برطانیہ جانا چاہتے ہیں، تاکہ اپنے بیٹوں سے ان کی والدہ کے انتقال کے بعد مل سکیں۔ ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ ان کے نام ای سی ایل میں ڈال کر آئین کے آرٹیکل 15، 4 اور 24 کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ نواز شریف نے ہمیشہ عدلیہ کا احترام کیا ہے۔ جب انہیں عدالت کی جانب سے طلب کیا گیا تو وہ برطانیہ میں اپنی بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر وطن واپس آئے تھے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف اپنے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز سے ملنے کیلئے برطانیہ جانا چاہتے ہیں۔ جبکہ کیپٹن (ر) صفدر بھی بیمار ہیں اور بیرون ملک علاج کرانا چاہتے ہیں۔ یہ بھی شنید ہے کہ مختلف ریفرنسز میں تفتیشی افسران نے نواز شریف کو کلین چٹ دے دی ہے، تاکہ ان کا نام ای سی ایل میں رکھنے کا کوئی جواز نہ رہے۔
دوسری جانب عدالت نے فلیگ شپ انوسٹمنٹ، العزیزیہ اسٹیل ملز اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں پیش نہ ہونے پر حسن نواٗز اور حسین نواز کو اشتہاری ملزم قرار دے رکھا ہے، جس کے بعد اب نیب آرڈیننس کے سیکشن 512 کے تحت ان کیخلاف شہادتیں ریکارڈ کی جائیں گی۔ عدالت نے دونوں ملزموں کو پہلے ہی مفرور قرار دے کر ان کی جائیداد قرق کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ واضح رہے کہ نیب نے حسن نواز اور حسین نواز کی جائیداد کے حوالے سے رپورٹ عدالت میں جمع کرائی تھی، جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں دونوں ملزموں کی کوئی جائیداد نہیں ملی، اگر جائیداد کی تفصیلات سامنے آئیں تو عدالت میں پیش کی جائیں گی۔ تاہم ان کے بینک اکاؤنٹس اور حصص پہلے ہی منجمد کئے جا چکے ہیں۔ نیب ریفرنسز سے متعلق جو گواہ نواز شریف کے خلاف شہادتیں ریکارڈ کروا رہے ہیں، وہی حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف بھی شہادتیں دیں گے اور گواہوں کے بیان بھی ریکارڈ پر لائے جائیں گے۔ حسن نواز، حسین نواز اور ان کے وکلا نیب ریفرنسز کی ایک بھی سماعت میں پیش نہیں ہوئے، جس پر عدالت نے دونوں ملزموں کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی برقرار رکھے ہیں۔
جمعرات کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کیس میں نواز شریف اور مریم نواز احتساب عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ایک ہفتے کیلئے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی، جس کا اطلاق جمعرات سے ہوگا۔ جبکہ مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی تاریخوں میں رد و بدل کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔ ان کا استثنیٰ 15 دسمبر تک برقرار رکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کا نام نگران کابینہ نے ای سی ایل میں ڈالا تھا، جسے پی ٹی آئی کی حکومت نے برقرار رکھا۔ قانون کے مطابق وزارت داخلہ کو اختیار حاصل ہے کہ کسی کا نام ای سی ایل میں ڈالے یا نکال دے۔ لیکن سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس عمل کو کابینہ کی منظوری سے مشروط کر دیا تھا۔ اب یہ مشکل نظر آرہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ نواز شریف اور مریم نواز کے نام ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلہ کرے۔ قانونی طور پر سیکریٹری داخلہ نے دونوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی منظوری دی تھی۔ اس کے بعد 13 جولائی کو پاکستان واپسی پر نیب نے انہیں لاہور سے ہی اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کردیا تھا۔ جبکہ ن لیگ کی حکومت کے دور میں نیب نے فروری، جون اور جولائی میں نواز شریف اور مریم نواز کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے وزارت داخلہ کو خطوط لکھے تھے، جس پر وزارت داخلہ نے اپنے طے شدہ طریقہ کار اور قانون پر عملدرآمد کرتے ہوئے ان کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا تھا۔ قانون کے مطابق جن افراد کے خلاف کوئی عدالت فیصلہ دے اور وہ بیرون ملک ہوں تو تعزیرات پاکستان کے تحت ان کا نام ای سی ایل میں آجاتا ہے اور اس قانون کے تحت مذکورہ شخص جیسے ہی وطن واپس آتا ہے، اسے ایئرپورٹ پر ہی گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نواز شریف نے پاکستان میں رضاکارانہ طور پر اس لیے گرفتاری دی کہ تحریک انصاف کی حکومت کا منصوبہ تھا کہ انہیں انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے پاکستان لایا جاتا۔ لیکن اس سے قبل ہی انہوں نے پاکستان آکر گرفتاری دے دی۔ اسی دوران ان کی اہلیہ کا لندن میں انتقال ہوا تو انہیں اہلیہ کے جنازے اور تدفین میں شرکت کیلئے ایک ہفتے کے پیرول پر رہا کیا گیا۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں انہیں ضمانت پر رہائی دیدی گئی۔
٭٭٭٭٭