برطانیہ کے ساتھ تحویل ملزمان کے معاہدے میں پیش رفت نہ ہوسکی

امت رپورٹ
پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تحویل ملزمان کے معاہدے (Extradition Treaty) کی کوششوں میں تاحال پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ معاملے سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کی امید بھی کم ہے۔ واضح رہے کہ ستمبر کے وسط میں برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید کی پاکستان آمد کے موقع پر قانون اور احتساب سے متعلق معاہدہ طے پایا تھا۔ جس کے تحت جرائم کے خاتمے، کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خلاف مشترکہ کوششیں کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ جبکہ قیدیوں کے دو طرفہ تبادلے (تحویل مجرمان) پر دوبارہ عمل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ جس کے بعد سے یہ تاثر عام تھا کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ’’تحویل ملزمان‘‘ کا معاہدہ بھی ہونے جا رہا ہے۔ جس کے تحت پاکستان کو مطلوب برطانیہ میں موجود افراد کی حوالگی کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں بالخصوص سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بیٹوں حسن و حسین نواز کا نام لیا جارہا تھا۔ تاہم اس معاملے سے آگاہ لندن میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے سے موجود قیدیوں کے تبادلے (تحویل مجرمان) کے معاہدے پر دوبارہ عمل کا سلسلہ شروع ہونے کے واضح امکانات تو موجود ہیں، لیکن ’’تحویل ملزمان‘‘ کے معاہدے کے حوالے سے برطانیہ سنجیدہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید کو وطن واپس آئے ایک ماہ کا عرصہ ہو چلا ہے، لیکن تاحال اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق تحویل ملزمان اور تحویل مجرمان دو الگ معاہدے ہیں، لیکن انہیں آپس میں گڈمڈ کر دیا جاتا ہے۔ تحویل ملزمان سے مراد ایسے شخص کی حوالگی ہے، جو کسی ملک کو مقدمہ چلانے کے لئے مطلوب ہو۔ جبکہ تحویل مجرمان کا مطلب سزا یافتہ افراد کی ان کے متعلقہ ممالک کو حوالگی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے 2007ء میں برطانیہ سے ’’تحویل سزا یافتہ مجرمان‘‘ کا معاہدہ کیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر برطانیہ میں کوئی مجرم جیل کاٹ رہا ہے تو وہ اپنی با قی ماندہ قید پاکستانی جیل میں گزار سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی برطانوی سزا یافتہ شہری پاکستانی جیل میں ہے تو وہ قید کا باقی عرصہ اپنے ملک میں کاٹ لے۔ ذرائع کے مطابق اس معاہدے کے تحت برطانیہ میں جیل کاٹنے والے چند پاکستانیوں کو کراچی لایا گیا تھا کہ وہ اپنی باقی قید یہاں گزار لیں۔ تاہم پاکستان پہنچائے جانے کے چند روز بعد ہی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے نہ صرف وہ جیل سے باہر آگئے، بلکہ ایکواڈور اور دیگر ممالک میں فرار ہوگئے۔ اس کی باقاعدہ شکایت برطانیہ نے پاکستانی حکام سے کی تھی۔ ذرائع کے مطابق اس واقعہ کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان ’’تحویل مجرمان‘‘ کے معاہدے پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔
برطانوی ہوم آفس تک رسائی رکھنے والے ایک رکن پارلیمنٹ کے بقول اول تو دونوں ممالک کے درمیان تحویل ملزمان کا معاہدہ ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ کیونکہ یہ کوششیں پچھلے 25 برس سے کی جا رہی ہیں۔ اور دوئم، اگر دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو اس کے باوجود ضروری نہیں کہ پاکستان کی درخواست پر برطانیہ کسی کو بھی حوالے کر دے گا۔ کیونکہ معاہدے کے باوجود برطانیہ کا ایکسٹرڈیشن ایکٹ 2003ء ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ برطانوی ایکٹ ایسے کسی فرد کی حوالگی کی اجازت نہیں دیتا جسے نسلی، مذہبی، قومیت، صنف یا سیاسی بنیادوں پر سزا دیئے جانے کا خدشہ ہو۔ یا ملزم کے خلاف غیر منصفانہ ٹرائل کا اندیشہ ہو۔ ملزم سے انسانی حقوق کے یورپی یونین کنونشن کے مطابق سلوک کی توقع نہ ہو۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملزم کو سزائے موت سنائے جانے کا خطرہ لاحق ہو۔ برطانوی ایکسٹرڈیشن ایکٹ میں اس کے علاوہ بھی درجنوں شقیں ہیں، جو کسی ملزم کی اس کے متعلقہ ملک کو حوالگی کا عمل مشکل بناتی ہیں۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ کے مطابق اس پس منظر میں اسحاق ڈار یا حسن اور حسین نواز کی پاکستان کو حوالگی کے امکانات صفر کے برابر ہیں۔ ہلچل پیدا کرنے کے لئے اس حوالے سے سیاسی بیان بازی کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ ورنہ اب تک لندن میں پناہ گزین غدار وطن الطاف حسین اور ریاست مخالف ہربیار مری کی حوالگی اب تک عمل میں آ چکی ہوتی۔ حوالگی کے مشکل پراسس میں بھارت کی مثال دیتے ہوئے رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ برطانیہ اور بھارت کے درمیان پچھلے 24 برس سے تحویل ملزمان کا معاہدہ موجود ہے۔ اس دو دہائیوں کے طویل عرصے کے دوران بھارت اپنے مطلوب افراد کی حوالگی کے لئے برطانوی حکام سے درجنوں درخواستیں کر چکا ہے۔ تاہم اب تک صرف ایک مطلوب فرد کو ہی واپس لے جا سکا ہے۔ حتیٰ کہ برطانوی حکام نے بدنام بھارتی بکی سنجیو کمار چائولہ کو بھی بھارت کے حوالے نہیں کیا۔ اس میں برطانوی عدالت رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ حوالگی کا یہ کیس پچھلے چند برس سے چل رہا ہے۔ برطانوی عدالت نے یہ کہہ کر حوالگی کی درخواست مسترد کی ہے کہ چائولہ کو اس کے ملک میں منصفانہ ٹرائل کا حق نہ ملنے اور تشدد کا خدشہ ہے۔ یہ وہی بھارتی بکی ہے، جس نے جنوبی افریقہ کے اسٹار کرکٹر کپتان ہنسی کرونئے کو میچ فکسنگ میں ملوث کیا تھا۔
دفتر خارجہ کے ایک سابق افسر نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان پچھلے 25 برس سے برطانیہ کے ساتھ تحویل ملزمان کا معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ افسر کے مطابق 93ء میں بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں الطاف حسین کی پاکستان واپسی کے لئے ان کوششوں کا آغاز ہوا تھا۔ پھر پیپلز پارٹی کے تیسرے دور حکومت میں اس وقت کے وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے بھی اس سلسلے میں ہاتھ پیر مارے۔ جبکہ نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں وزیر داخلہ چوہدری نثار اس حوالے سے جدوجہد کرتے رہے، لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ سابق افسر کے مطابق برطانوی حکام ’’سزائے موت‘‘ کے قانون کو اس معاہدے میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔ لیکن دوہرا معیار یہ ہے کہ بھارت میں پھانسی کی سزا کا قانون ہونے کے باوجود برطانیہ نے دہلی سے یہ معاہدہ کر رکھا ہے۔ پاکستان کا اس وقت امریکہ، آسٹریلیا، کیوبا، ڈنمارک، مصر، ایران، عراق، مالدیپ، پرتگال، ترکی، سعودی عرب اور ازبکستان سمیت دو درجن سے زائد ممالک کے ساتھ تحویل ملزمان کا معاہدہ ہے۔
معروف پاکستانی نژاد برطانوی بیرسٹر امجد ملک کا بھی یہی کہنا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تحویل ملزمان کا معاہدہ ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ برطانیہ اس معاملے کو بڑی احتیاط سے دیکھتا ہے کہ جس ملک کے حوالے ملزم کو کرنا ہے، اس کا کرمنل جسٹس سسٹم شاندار ہو۔ انوسٹی گیشن، پراسیکیوشن سے علیحدہ ہو۔ ٹرائل پر کسی کے اثر انداز ہونے کا خدشہ نہ ہو۔ چونکہ برطانیہ نے انسانی حقوق سے متعلق یورپی یونین کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں۔ جس کی دو شقیں بہت اہم ہیں۔ ایک یہ کہ جس ملک میں سزائے موت کا قانون ہو جب تک ریاست تحریری طور پر یہ یقین دہانی نہ کرا دے کہ ملزم کو پھانسی نہیں دی جائے گی، اس وقت تک ملزم کی حوالگی نہیں کی جاتی۔ دوسرا یہ کہ ملزم سے اعتراف جرم کے لئے تشدد نہیں کیا جائے گا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اگر کسی ملزم کے خلاف شواہد فراہم کئے جائیں تو ان شواہد کو برطانوی حکام اپنی چکی میں ضرور ڈالیں گے۔ یعنی معاملے کو سیاسی طور پر نہیں، بلکہ شواہد کی بنیاد پر دیکھا جائے گا۔ لیکن حوالگی کے لئے برطانوی حکومت کو بھی یہ معاملہ عدالت میں لے جانا پڑے گا۔ متاثرہ شخص کو بھی عدالت میں اپیل کا حق ہوتا ہے۔ جب تک عدالت مطمئن نہ ہو، ملزم کی حوالگی ممکن نہیں ہوتی۔ اسحاق ڈار کی حوالگی سے متعلق ایک سوال پر بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیر داخلہ نے پاکستان میں پریس کانفرنس کے بعد لندن واپس آ کر کہا ہے کہ برطانیہ سیاسی کیسوں میں نہیں جائے گا۔ شواہد کے مطابق چلے گا۔ اس سے واضح ہو گیا ہے کہ اسحاق ڈار یا حسن اور حسین نواز کی حوالگی کا امکان نہیں۔ کیونکہ برطانوی حکام ان کیسز کو سیاسی تصور کرتے ہیں۔ خاص طور پر ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اور مریم نواز کو سنائی جانے والی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد جو تھوڑا بہت امکان تھا، وہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کے پورے ٹرائل میں سوراخ کر دیئے ہیں۔ لہٰذا برطانیہ اس طرح کے الزامات پر کوئی ایکشن نہیں لے گا، جس میں کرپشن ثابت نہیں کی جا سکی۔ بیرسٹر امجد ملک کا مزید کہنا تھا ’’مختلف ممالک سے اپنے تعلقات بنانے کے چکر میں حکومت بہت کچھ کھو دے گی۔ لہٰذا میرے خیال میں اس طرح کا کوئی معاہدہ ہونا ہی نہیں چاہئے۔ جبکہ اس وقت آدھا برطانیہ حکومت میں بیٹھا ہے، تو قومی مفادات کا تحفظ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ 180 ارب ڈالر کا ہائوسنگ پروجیکٹ مانچسٹر کا انیل مسرت چلانے جا رہا ہے۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور کا تعلق برطانیہ کے اسکاٹ لینڈ سے ہے۔ اوورسیز کا منسٹر زلفی بخاری لندن سے ہے۔ اوور سیز کمشنر بھی لندن سے ہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی کا واحد اقلیتی ایم ایل اے برمنگھم سے ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیر اعظم کے بچے برطانوی گارڈین شپ میں پرورش پا رہے ہیں‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment