سید ارتضی علی کرمانی
اس واقعہ کے تھوڑے عرصہ بعد حضرت صاحبؒ نے پاک پتن حاضری کا قصد کیا۔ وہاں رہائش کے لیے جناب مولوی محبوب عالم صاحب کچھ دن پہلے چلے گئے۔ عرس کا زمانہ تھا۔ دیوان صاحب سے حضرت صاحبؒ کے ارادہ کا ذکر کر کے جائے قیام کی درخواست کی، وہ خاموشی ہوگئے۔ ابھی تک حضرت صاحبؒ کا یا آپ کے کسی خادم کا دیوان سید محمد سے کوئی تعارف یا تعلق نہیں تھا۔ ایک دوسرے کے مزاجوں سے کسی قسم کی واقفیت نہیں تھی۔ دیوان سید محمد صاحب کی خاموشی کو مولوی صاحب نے انکار ہی جانا۔
جب مولوی صاحب نے اٹھنا چاہا کہ چلیں شہر میں کوئی مکان کرایہ پر حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تو دیوان صاحب نے انہیں روک کر فرمایا کہ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ ایسے خصوصی مہربان بزرگ کا استقبال اور رہائش کے لیے کیسا انتظام ہونا چاہیے، جنہوں نے ایک نہایت نازک وقت میں بغیر کسی تعارف کے میری امداد فرمائی۔ میری خواہش تھی کہ موتی محل ان کے قیام کے لیے مناسب رہے گا۔ مگر موتی محل میں عرس کے موقع پر بعض دوسرے حضرات بھی قیام فرماتے ہیں۔ اس لیے اندیشہ لاحق ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ حضرات محسوس کریں۔ مگر اب میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ان کی جائے قیام موتی محل ہی ہوگی۔ دوسروں کے متعلق حضرت باوا صاحبؒ جانیں اور وہ صاحبان جانیں۔
جب حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ جب پاک پتن پہنچے تو دیوان صاحب نے بڑے تپاک سے استقبال کیا۔ دیوان صاحب فرماتے ہیں کہ ’’جب حضرت صاحبؒ تشریف لائے تو تعظیم کے لیے اٹھ کھڑا ہوا، مگر جو خیال میرے دل میں آپ کی شخصیت کا تھا وہ جاتا رہا۔ میرا خیال تھا کہ حضرتؒ کے سر پر اونی ٹوپی ہوگی۔ کمر میں نیلے یا جوگیا رنگ کا تہبند ہوگا اور گلے میں قدرے میلا اور مستعل عبا سا کرتا ہوگا۔ کیوں کہ اس وقت تک ہمارے ذہن میں ایک فقیر اور ولی کی ہیئت اور لباس کا یہی نقشہ تھا۔ مگر دیکھا تو نہایت خوبصورت گھنکریالے لمبے بال، نفیس کلاہ پر سفید عمامہ، پارچات مصفی اور سفید رنگ جن پر چغہ پہن رکھا تھا۔ میں سمجھا کہ دنیادار ہیں۔ اور اٹھ کر ملنے پر دل ہی دل میں افسوس کرنے لگا۔
لیکن حضرت صاحبؒ نے میری دلی کیفیات سے مطلع ہوکر مجلس میں اپنے ارادت مند افسر مال سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ ’’جب آپ لوگ اپنے کسی افسر سے ملاقات کے لیے جاتے ہیں تو کیا اچھا لباس پہن کر جاتے ہیں یا میلا کچیلا اور پٹھا پرانا؟‘‘
اس نے عرض کیا کہ اگر ہم اچھا لباس پہن کر نہ جائیں تو افسر برا منائیں گے۔ اس پر حضرت صاحبؒ نے فرمایا کہ: جب دنیاوی افسروں کی حاضری کے لیے آداب ہیں تو جو دینی پیشوا اور صاحب سجادہ ہوں، ان کے دربار میں حاضری کے آداب کا خود خیال کرلیں۔ نیز حدیث شریف ہے کہ:
ترجمہ: حق تعالیٰ خوبصورت کو پسند کرتا ہے۔
دیوان صاحب فرماتے تھے کہ یہ سن کر میں خطرہ دل پر ازحد نادم اور پشیمان ہوا اور عمر بھر میرے دل میں حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ کے متعلق کبھی کسی قسم کا شک و شبہ پیدا نہیں ہوا۔
حضرت خواجہ حسن نظامیؒ دہلوی
جناب پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ کے ساتھ خواجہ حسن نظامی صاحبؒ کی ملاقات پاک پتن شریف میں عرس کے موقع پر ہوئی۔ آپ سلطان المشائخ حضرت محبوب الٰہیؒکے خواہر زادہ تھے اور اسی نسبت سے لوگ ان کے ساتھ والہانہ پیار اور عقیدت کا اظہار کیا کرتے تھے، چونکہ جناب سید محمد صاحبؒ دیوان مزار پاک پتن حضرت پیر صاحبؒ کی ازحد عزت و تکریم کیا کرتے تھے اور عرس کے موقع پر دیوان صاحب ادائے رسومات میں آپ کو ایک خاص مرتبہ اور خصوصی امتیاز دیا کرتے تھے، اسی لیے عرس کے موقع پر ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو حضرت صاحبؒ سے فیض حاصل کرنے کے مواقع موجود ہوتے تھے۔
خواجہ صاحبؒ کے اصرار پر انہیں پاک پتن ہی میں بیعت سے سرفراز فرمایا۔ خواجہ حسن نظامیؒ نے حسن تحریر کے لیے دعا کی استدعا کی تو آپ نے دعا فرما کر کوئی خاص طریقہ بھی تلقین فرمایا، جس کی برکت سے خواجہ صاحب اپنے وقت کے مشہور اہل قلم ہوئے اور ان کو مصور فطرت کا لقب دیا گیا۔ اسی طرح کی دعا آپؒ نے حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے لیے بھی فرمائی تھی۔ ان کے لیے آپؒ نے حسن تقریر کے لیے دعا فرمائی تھی۔ جو اپنے کے وقت کے سب سے بڑے خطیب بنے۔ مگر ہر دو حضرات کو متنبہ فرما دیا تھا کہ تحریرو تقریر کی وضاحت مقام خطر ہے۔ ان کے درست استعمال کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭