ایک مرتبہ حضور اکرمؐ کا ایک قاصد آپؐ کا پیغام لے کر ایک بادشاہ کے پاس گیا، بادشاہ نے قاصد کو دیکھتے ہی غصے میں اسے ایک نیزہ مارا اور وہ سیدھا قاصد کے سینے میں لگا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ زمین پر گرا اور کہنے لگا ’’بخدا! میں کامیاب ہوگیا‘‘ بادشاہ اور دربادی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ وہاں کوئی بزرگ موجود تھے، انہوں نے فرمایا کہ یہ شہید ہوگیا ہے، اس لیے اپنی شہادت سے پہلے اپنی اسی خوشی اور کامیابی کا اظہار کر رہا ہے، جس کی بشارت رسول اکرمؐ نے اس کو سنائی ہے کہ شہید پر آخرت میں کسی قسم کا عذاب نہ ہوگا اور وہ کامیاب و کامران رہے گا، اس بات کو سوچ کر اپنی اس کامیابی کا اظہار کر رہا ہے۔ (سچی اسلامی کہانیاں)
قاضی کا خط
قاضی سید علی محمد متوفی 1070ھ اولیائے کرام کی صف میں بڑا مقام رکھتے ہیں، ایک مرتبہ ان کو اطلاع ملی کہ ہجاپور (ایک جگہ کا نام ہے) کے ایک دولت مند نے اپنے مکان میں متصلہ مسجد کو بھی شامل کر لیا ہے، عام مسلمان بے چارے اس کی دولت و قوت کی وجہ سے دم بخود ہیں، قاضی صاحب نے اس دولت مند کو ایک خط لکھا، جس میں یہ آیت بھی درج کی، جس کا ترجمہ ہے: اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے، جس نے خدا کی مساجد میں رکاوٹ ڈالی کہ ان میں خدا کا نام لیا جائے اور ان کو اجاڑنے کے درپے ہو۔ اس آیت کا اثر یہ ہوا کہ اس شخص نے مسجد کو اپنے مکان سے الگ کر دیا۔
(ناقابل فراموش تاریخ کے سچے واقعات صفحہ نمبر 121)
بھول اور یاد!
علامہ ابن عابدین شامیؒ نے حضرت ہشام کلبیؒ سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک بار حافظہ کی تیزی کا ثبوت بھی ایسا دیا کہ شاید کسی نے نہ دیا ہو اور ایک مرتبہ مجھ سے بھول بھی ایسی ہوئی کہ شاید کسی سے نہ ہوئی ہو، میرے حافظہ کی تیزی کا تو یہ عالم تھا کہ میں نے قرآن کریم صرف تین دن میں یاد کر لیا تھا اور بھول ہوئی تو ایسی ایک دن میں خط بنانے بیٹھا، داڑھی کو مٹھی میں لے کر نیچے کے بال کاٹنا چاہتا تھا، مگر بد حواسی میں مٹھی سے اوپر کے بال کاٹ ڈالے اور پوری داڑھی ہاتھ میں آگئی۔ (رد المختار)
٭٭٭٭٭