ضیاءالرحمن چترالی
خالد اپنی شریک حیات کے ساتھ اکثر اسلامی کتابیں لینے کتب خانہ آتا رہتا تھا، چند ماہ بعد وہ دونوں غائب ہو گئے، 7,6 ماہ بعد خالد پھر سے کتب خانہ آیا، دکان دار نے اتنے دنوں تک غائب رہنے کی وجہ پوچھی تو اس نے اپنی کہانی کچھ یوں سنائی:
’’میری بیوی کے پاسپورٹ کی مدت ختم ہو چکی تھی، اس کے لیے ضروری تھا کہ جہاں سے پاسپورٹ بنا ہے، وہیں سے تجدید کروائی جائے، اس کے لیے ہمیں روس جانا تھا، میری بیوی میرے ساتھ برقع میں ہی روس کے لیے روانہ ہوئی۔ ہوائی جہاز میں سبھی لوگ ہمیں تیکھی نظروں سے دیکھنے لگے، تھوڑی دیر بعد وہ ہمارا مذاق اڑانے لگے، مگر میری بیوی ان کی پروا کیے بغیر سکون سے بیٹھی رہی، جبکہ میں بیٹھا بیٹھا جلتا رہا۔
روس میں ہوائی جہاز سے اترنے کے بعد میری بیوی نے کہا کہ میرے گھر والے بہت متعصب ہیں، اس لیے ہم ایک کمرہ کرائے پر لے کر اس میں رہیں گے اور جب پاسپورٹ بن جائے گا، اس کے بعد ہم ان سے ملنے جائیں گے۔ پاسپورٹ آفس میں میری بیوی نے جو فوٹو دیا، اس میں چہرے کے علاوہ بقیہ اعضاء چھپے ہوئے تھے، افسر نے کہا ہمیں ایسا فوٹو دو جس میں تمہارا چہرہ، بال اورگردن وغیرہ کھلی ہوں، میری بیوی میرے کہنے کے باوجود اپنا برقع اتار کر فوٹو کھچوانے کو تیار نہیں ہوئی، افسر نے شاید ہمیں ٹالنے کے لیے کہہ دیا کہ تمہاری اس مشکل کو ماسکو دفتر میں بیٹھے ہوئے سیکریٹری جنرل ہی حل کرسکتے ہیں۔
ہم لوگ ماسکو پہنچے، وہاں بھی وہی رکاوٹ پیش آئی، میرے سمجھانے پر میری بیوی نے یہی کہا کہ جب میں خدا کے دین کو سمجھ چکی ہوں تو کیسے میں اپنا برقع اتاروں اور سرکھول کر فوٹو بنواؤں؟ وہاں کا افسر بہت برا آدمی تھا، اس نے غصے میں کہا جب تک تم سر کھلی تصویر نہیں دو گی، ہم نہ تمہارا پرانا پاسپورٹ واپس کریں گے، نہ نیا جاری کریں گے۔ میری بیوی نے کہا کہ جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں، خدا ان کی مدد کرتا ہے۔
ہم لوگ واپس کمرے پر آگئے، رات میں جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا بیوی نماز پڑھ رہی ہے اور رو رو کر خدا سے دعائیں کر رہی ہے، صبح فجر کے لیے مجھے اٹھایا اور کہا کہ خدا سے دعا کرو، وہ ہماری مشکل ضرور آسان کرے گا، اس کے بعد ہم پاسپورٹ آفس چلے گئے، ابھی ہم داخل ہی ہوئے تھے کہ ایک ملازم نے میری بیوی کا نام پوچھا اورکہا تمہارا پاسپورٹ تیار ہو گیا ہے، فیس جمع کرا کرلے جاؤ۔
یہ سن کر میں حیران رہ گیا، میری زندگی میں اس طرح کا واقعہ پہلے کبھی پیش نہیں آیا تھا۔ اب ہم واپس اسی شہر پہنچے اور بیوی کے گھر والوں سے ملنے کے لیے گئے، اس کے بھائی بہن اور باپ سبھی اس کو برقع میں دیکھ کر کافی حیران تھے، وہ سب مجھے گھر کے ایک کمرے میں بٹھا کر دوسرے کمرے میں چلے گئے، دوسرے کمرے سے روسی زبان میں زور زور سے باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں، پھر میں نے اپنی بیوی کی زوردار چیخ سنی، ساتھ ہی وہ سب تیزی سے میرے پاس آئے اور بری طرح میری پٹائی کرنے لگے، مجھے لگا کہ بس اب میں مرنے والا ہوں، میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں، میں نے دروازہ کھولا اور بھاگ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭