سرفروش

عباس ثاقب
میری بات سن کر بزرگ سردار جی کے چہرے پر خوشی اور جوش کے ملے جلے تاثرات ابھرے۔ وہ جھکے اور ہاتھ بڑھاکر میرے شانے پر تھپکی دی۔ ’’اوئے شاباش ہے جوان، حلیے سے تو بابو لگتا ہے پر دھرم سے پریم کرتا ہے‘‘۔
میں نے جلدی سے کہا۔ ’’مجھے دھرم کی کوئی سمجھ ہے اور نہ ہی دلچسپی۔ میں تو تفریح کے لیے جا رہا ہوں۔ اسی بہانے پنجاب بھی دیکھ لوں گا۔ میرے پتا جی بہت تعریف کرتے تھے پانچ دریاؤں کی دھرتی کی‘‘۔
براہم سنگھ جی نے میری بات سن کر پُرجوش لہجے میں کہا۔ ’’یار تم پنجاب میں دو چار دن گزار کے تو دیکھو، دل خوش ہو جائے گا۔ صحت بخش آب و ہوا، محبت کرنے والے، مہمانوں پر جان چھڑکنے والے لوگ، طاقت سے بھرپور کھانا پینا… مجھے تو لگتا ہے تم ولایت واپس جانے سے انکار کر دو گے‘‘۔
باپ کی زبان سے یہ باتیں سن کر بشن دیپ نے کہا۔ ’’مگر یہ سب نعمتیں اسے ملیں گی کہاں؟ یہ کسی گاؤں نہیں، پٹیالے شہر جارہا ہے۔ وہاں ہوٹل شوٹل میں چار چھ دن گزارے گا، موٹر میں شہر کی سڑکوں پر گھومے گا اور پھر دلّی یا بمبئی واپس چلا جائے گا‘‘۔
بیٹے کی بات میں وزن جانچ کر بڑے میاں کے چہرے کی رونق ماند پڑگئی۔ وہ چند لمحے کے لیے گہری سوچ میں پڑ گیا۔ پھر اس نے پژمردہ سے لہجے میں کہا۔ ’’پتر بات تو تیری بالکل صحیح ہے، پٹیالے میں…‘‘۔ اچانک وہ بات ادھوری چھوڑکر مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’ایک بات بتا تیغ بہادر پتر، تیرا پٹیالہ شہر میں ٹھہرنا ضروری ہے؟ میرا مطلب ہے تم ہمارے مہمان بن کر ہمارے ساتھ چھاجلی قصبے سے دو میل کے فاصلے پر واقع ہماری زرعی اراضی پر چل کر ٹھہرو۔ وہاں واہگورو کی کرپا سے ہماری حویلی ہے، کھیت کھلیان ہیں، مال مویشی بھی ہیں۔ وہاں تمہیں ہمارا سوہنا پنجاب اپنے اصل رنگ میں نظر آئے گا۔ وہیں سے پٹیالے میں میلے کا چکر لگاتے رہنا‘‘۔
میں نے دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے، لیکن بظاہر نیم دلی سے پوچھا۔ ’’آپ کے گاؤں سے پٹیالے کا فاصلہ کتنا ہے؟‘‘۔
میرے سوال کا جواب بشن دیپ نے دیا۔ ’’فاصلہ تو لگ بھگ پینتالیس میل ہے، لیکن حویلی میں دو گاڑیاں اور تین موٹر سائیکلیں ہیں۔ میں میلے کے دنوں میں خود تمہیں پٹیالہ لے چلوں گا۔ صبح سے شام تک دونوں وہاں گھومیں پھریں گے اور رات کو حویلی واپس آجائیں گے۔ جیپ میں صرف ڈیڑھ دو گھنٹے کا تو سفر ہے‘‘۔
اس مرحلے پر دونوں سرداروں کی گھر والیاں بھی مجھے مہمان بنانے کی مہم میں شامل ہوگئیں اور ان سب کے اصرار پر میں نے ’’مجبوراً‘‘ پٹیالا جاکر رہنے کے بجائے چھاجلی قصبے کے نواح میں واقع ان کی حویلی میں قیام کی دعوت قبول کرلی۔ بشن دیپ نے بتایا کہ ان کے قصبے جانے کے لیے ہمیں مانسا قصبے سے لگ بھگ دس میل آ گے بڈھالڈا ریلوے اسٹیشن اترنا ہوگا۔ جہاں حویلی سے آئی ہوئی گاڑیاں ہماری منتظر ہوں گی۔ چھاجلی پہنچنے کے لیے ہمیں لگ بھگ ایک گھنٹے کا سفر مزید طے کرنا پڑے گا۔
اس دوران میں پنجاب میل خاصی مناسب رفتار سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ بمبئی سے روانہ ہونے کے لگ بھگ ایک گھنٹے بعد ٹرین پانچ سات منٹ کے لیے کلیان ریلوے اسٹیشن پر ٹھہری۔ بشن دیپ نے وہاں سے مجھ سمیت سب گھر والوں کے لیے چائے خریدی۔ اس دوران میں بشن دیپ کی گھر والی امرتا کئی منزلہ بھاری بھرکم ٹفن کھول چکی تھی۔ میں نے بہتیرا کہا کہ میں کافی بھاری ناشتہ کر کے ٹرین میں بیٹھا ہوں، لیکن ان کے اصرار پر مجھے مرغن ناشتے کے چند لقمے کھانے پڑے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ پورا خاندان خاصا خوش خوراک واقع ہوا ہے۔ کیونکہ انہوں نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے کھانے کی بھاری مقدار کا صفایا کر دیا تھا۔ حتیٰ کہ بظاہر دھان پان نظر آنے والی بوڑھی سردارنی سکھونتی کور بھی بڑھ بڑھ کر ہاتھ مارتی رہی۔
امرتا شاید سفر کی تیاری کی وجہ سے رات کو نیند پوری نہیں کرسکی تھی، چنانچہ سب گھر والوں کو ناشتہ کرانے اور چائے پلانے کے بعد وہ اوپر والی سیٹ پر لیٹ گئی اور کچھ ہی دیر میں خراٹے لینے لگی۔ نیچے کی ایک سیٹ خالی ہوتے ہی بشن دیپ نے اپنی ماں کو خالی سیٹوں پر آرام سے بیٹھنے یا لیٹنے کی صلاح دی۔ دونوں بچیوں کے لیے ایک سیٹ کی جگہ کافی تھی، چنانچہ بیک وقت تین سیٹیں بڑی بی کے قبضے میں آگئیں۔ جو اس مختصر قامت عورت کے لیے کافی تھیں۔ پھر وہ بھی کھیس لپیٹ کر ہماری طرف پیٹھ کرکے سوگئی۔
کچھ دیر بعد بشن دیپ نے اپنے باپ کو میری سیٹ پر جانے کا کہا اور مجھے مجھے اپنے ساتھ بیٹھنے کی دعوت دی جو میں نے قبول کرلی۔ البتہ براہم دیپ سنگھ سیٹوں کی ترتیب تبدیل ہونے سے کچھ زیادہ مطمئن دکھائی نہ دیئے۔ مجھے جلد ہی اس کے بدمزہ ہونے کی وجہ بھی سمجھ میں آگئی۔ وہ بخوبی جانتا تھا کہ اس کا بیٹا مجھ سے اس موضوع پر مزید بات کرنے کے لیے اپنے پاس بٹھا رہا ہے، جو اس کے لیے کچھ زیادہ خوش گوار نہ تھا۔ یعنی سکھ قوم کا الگ دیس۔ چنانچہ میری سیٹ سنبھالتے ہی وہ ہماری طرف سے لا تعلق ہوگیا اور کھڑکی سے باہر پیچھے کی طرف دوڑتے مناظر پر اپنی نظریں جمادیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment