پنجاب کے طاقتور سیاستدان پولیس ریفارمز میں رکاوٹ بن گئے

نمائندہ امت
پنجاب پولیس ریفارمز کمیشن کے سربراہ ناصر درانی کے استعفے پر مختلف قیاس آرائیوں نے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔ تاہم باوثوق ذرائع کے مطابق آئی جی پنجاب کے تبادلے نے ناصر درانی کو کمیشن کی سربراہی سے دستبرداری کا موقع فراہم کیا۔ سابق آئی جی خیبرپختون ناصر درانی نے آئی جی پنجاب محمد طاہر خان کے تبادلے کی مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے پولیس میں اصلاحات کا جو دعویٰ کیا گیا ہے، اس کی نفی ہوگی۔ ذرائع نے بتایا کہ دراصل عمران حکومت کی کمزور پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب کے طاقتور سیاستدان پولیس ریفارمز میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ بالخصوص ق لیگ ایسا نہیں چاہتی۔ پرویز الٰہی پولیس کو صوبائی حکومت کے کنٹرول میں رہنے پر زور دے رہے ہیں، کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو بلدیاتی انتخابات میں نون لیگ کو کامیابی حاصل ہو جائے گی۔ ذرائع کے بقول چوہدری پرویز الٰہی جو پنجاب اسمبلی کے اسپیکر بھی ہیں، نے شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف پولیس کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، تاکہ پنجاب میں جس طرح کی سیاسی طاقت وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں مل جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس ریفارمز کے ابتدائی نکات میں یہ بات شامل تھی کہ ایس ایچ او سے لے کر ڈی آئی جی تک کے تمام عہدیداروں کا انتخاب میرٹ پر کیا جائے گا اور یہ اختیار صرف اور صرف آئی جی کے پاس ہی ہو گا۔ جبکہ کسی بھی ڈی پی او یا آر پی او کو اس کے آبائی ضلع میں تعینات نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے ایسے ضلع میں تعینات کیا جائے گا، جہاں پر اس کے خاندانی مفادات نہ ہوں۔ تاہم ذرائع کے بقول مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الٰہی اور پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے بعض آزاد اراکین جو اپنے علاقوں میں برادری کی بنیاد پر جیتتے ہیں، کا اصرار تھا کہ اس طرح نہ صرف نون لیگ کی سیاست حاوی رہے گی، بلکہ اس کی مقامی قیادت کو اپنی پارٹی کیلئے کام کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ پنجاب میں ہمیشہ سیاست پٹواری اور پولیس تھانے کے ذریعے ہی کی جاتی ہے۔ لہذا پولیس کو اتنا غیر سیاسی کرنے اور آزادی دینے سے مسلم لیگ (ن) آئندہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرلے گی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر مسلم لیگ (ق) اور آزاد اراکین پی ٹی آئی کا ساتھ نہ دیتے تو پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت نہ بنتی۔ سنگل پارٹی کی حیثیت سے برتری تو نون لیگ کو ہی حاصل تھی۔ اس لئے آئندہ انتخابات جو براہ راست ہوں گے، میں مسلم لیگ (ن) کو پورے پنجاب میں کامیابی مل سکتی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات نہ دینے پر حکومت کو مشکلات کا سامنا ہو گا۔ ذرائع کے ماطابق ان دلائل پر عمران خان اور ان کے ساتھی پولیس ریفارمز میں نرمی لانے کیلئے کوشش کرتے رہے۔ انہوں نے پولیس ریفارمز میں یہ شق شامل کرنے پر بھی رضا مندی ظاہر کی کہ متعلقہ ڈی پی اوز اور آر پی اوز کی تبدیلی سے پہلے مقامی نمائندوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ ذرائع کے بقول پولیس ریفارمز کمیشن کے سربراہ اور سابق آئی جی خیبر پختون ناصر درانی کو بھی اس نئی ڈیولپمنٹ کی اطلاع مل رہی تھی اور وہ اس پر ناراض بھی تھے۔ جب حکومت نے آئی جی پنجاب کا خلاف ضابطہ تبادلہ کیا تو ناصر درانی کو یہ موقع مل گیا کہ وہ با عزت طور پر پولیس ریفارمز کمیشن سے دستبردار ہو جائیں۔ ان کے پاس پولیس ریفارمز خیبرپختون کے تمام قوانین اور ڈرافٹ موجود تھے اور اس میں صرف چند چھوٹی موٹی تبدیلیاں کرنا تھیں۔ لیکن عمران خان کی کمزور حکومت اور ممکنہ بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے خوف کے سبب پنجاب میں پولیس ریفارمز میں روڑے اٹکائے گئے۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پنجاب بھر میں میں ضلعی ناظمین یا میئر شپ کیلئے پی ٹی آئی کے پاس اچھے اور تگڑے امیدوار نہیں تھے۔ جو تھے وہ قومی اور صوبائی اسمبلی میں اتار دیئے گئے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) ضلعی اور تحصیل سطح پر منظم ہے۔ اسی لئے پرویز الٰہی سمیت پی ٹی آئی میں دیگر پارٹیوں سے نکل کر شامل ہونے والوں نے وزیر اعظم سمیت حکومت کے سامنے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ پنجاب کے اکثریتی اور بڑے اضلاع میں مسلم لیگ (ن) کو قابو کرنا مشکل ہو جائے گا اور اب جبکہ نواز شریف کو عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا ہے تو مسلم لیگ (ن) کو نئی زندگی مل جائے گی۔ دوسری جانب عمران حکومت جس نے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا اعلان کیا تھا، اور اب جبکہ وہ عالمی مالیاتی ادارے کے پاس جانے کا فیصلہ کر چکی ہے تو یہ عمل بھی تحریک انصاف کے ورکرز کیلئے سخت ناپسندیدہ ہے۔ مہنگائی میں مزید اضافے نے بھی عوام کو بدظن کیا ہے۔ یہ سب عوامل پی ٹی آئی کو آئندہ بلدیاتی انتخابات میں مشکلات سے دوچار کر سکتے ہیں۔ ان تمام عوامل کو سامنے رکھ کر ہی پولیس ریفارمز میں نرمی لانے پر پی ٹی آئی نے کام شروع کیا، جس پر ناصر درانی کو اعتراض تھا۔ ذرائع کے مطابق ناصر درانی اس سے قبل ہی اپنے ساتھیوں کو آگاہ کر چکے تھے کہ پنجاب میں پولیس ریفارمز ممکن نہیں۔ اس حوالے سے ’’امت‘‘ نے ناصر درانی سے درانی سے بار بار رابطہ کیا، تاہم ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔ تاہم ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے استعفیٰ صحت کی خرابی کی وجہ سے دیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment