بھارتی میزائل سائنٹسٹ کو ٹریپ کرنے والی لڑکیوں کی تلاش

سدھارتھ شری واستو
بھارتی اداروں کو براہموس میزائل پروجیکٹ کے نگراں بھارتی سائنسدان کو ٹریپ کرنے والی لڑکیوں کی تلاش ہے۔ نیہا اور پوجا نامی خواتین نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بُک پر نشانت اگروال سے براہموس میزائل کی حساس معلومات حاصل کی تھیں۔ یہ دونوں سوشل میڈیا اکائونٹس لندن اور امریکہ سے آپریٹ کئے جا رہے تھے۔ بھارتی اینٹی ٹیرراسٹ ادارے اور تفتیش کاروںنے دعویٰ کیا ہے کہ گرفتار سائنسداں اگروال نے براہموس میزائلوں کی ٹیکنیکل معلومات پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی سمیت ایک غیر ملک کی انٹیلی جنس کو فراہم کر دی ہیں۔ انہیں ہنی ٹریپ کیا گیا تھا۔ لیکن عدالتی فورم پر نشانت اگروال کے وکیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے موکل کو پولیس اور اینٹی ٹیرر اسکواڈ کی جانب سے پھنسایا گیا ہے۔ نوجوان نے کسی خاتون کو میزائلوں سے متعلق نہیں بتایا۔ گرفتاری کے وقت ان کا موکل براہموس میزائل پروجیکٹ پر کام نہیں کر رہا تھا۔ وہ اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر کینیڈا کی ایک فرم کے ساتھ کام کیلئے ملک سے باہر جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ نشانت اگر وال کے وکیل نے عدالت میں اس کے ریمانڈ کی مخالفت اور ضمانت کیلئے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ نوجوان سائنسدان نے کوئی ڈیٹا کسی کو بھی نہیں دیا ہے اور ایسا کوئی ثبوت پولیس یا تفتیشی افسران کے پاس نہیں ہے کہ میرے موکل نے کسی کو یہ مواد دیا ہو۔ اور جہاں تک انٹرنیٹ اور فیس بُک سمیت لنکڈ اِن پر نشانت اگروال کی سرگرمیوں کا معاملہ ہے تو میرا موکل دور جدید کا نوجوان سائنسدان ہے، جس کو سماجی رابطوں کی سائٹس پر متحرک ہونے سے کوئی قانون نہیں روک سکتا۔ جبکہ میرے موکل نے پروفیشنل سائیٹس پر ایسا کوئی مواد اپ لوڈ نہیں کیا ہے، جس سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ اس نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ لیکن عدالت میں حکومتی پراسیکیوٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ براہموس سُپر سانک میزائلوں کی کئی قسم کی ٹیکنیکل انفارمیشنز کو اگروال نے اپنے لیپ ٹاپ میں رکھا ہوا تھا اور انہوں نے فیس بک پر بھی حساس مواد کو ڈالا ہوا تھا اور فارنسک جانچ میں جو مواد ان کے لیپ ٹاپ سے برآمد کیا گیا ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سنگین خلاف ورزی کی ہے اور ممکنہ طور پر براہموس میزائلوں کی حساس معلومات لیک کی ہیں اور کوڈ سسٹم کے تحت اپنے مبینہ ہینڈلرز کو پیغامات دیئے ہیں جن کو ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بھارتی جریدے ڈیلی ون انڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی تفتیشی ادارے اس نکتہ پر بھی تفتیش کررہے ہیں کہ آیا نشانت اگروال کو امریکی انٹیلی جنس نے تو قابو نہیں کیا۔ بھارتی ذرائع کے مطابق نشانت کی جانب سے مبینہ طور پر بھیجے جانے والے ان حساس پیغامات (پی ڈی ایف فائلوں) میں براہموس میزائل سسٹم کے میجر سب سسٹم، انرشل نیوی گیشن سسٹم، فائر کنٹرول سسٹم، پروپلژن سسٹم، فیول مینجمنٹ سسٹم، میٹالک ایئر فریم کمپوننٹ سسٹم، ہائی کریٹیکل کمپوننٹس سسٹم کی معلومات شامل ہیں ۔ بھارتی تفتیشی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پونا میں دو لڑکیوں کی تلاش شروع کردی ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ماضی میں انہوں نے ہندو ناموں سے فیس بک سمیت سماجی رابطوں کی سائٹس پر ایسے ’’شکار‘‘ پھانسنے کی کوششیں کی تھیں، ان لڑکیوں کی پرانی آئی ڈیز نیہا اور پوجا ہیں، جن کی تصدیق اینٹی ٹیرر اسکواڈ اور انٹیلی جنس بیورو نے بھی کی ہے۔ لیکن تازہ الزامات کے تحت بتایا گیا ہے کہ نوجوان سائنسدان نشانت اگروال نے کم از کم دو سماجی سائٹس پر اپنے لیپ ٹاپ سے ڈیٹا ڈالا جو حساس ٹیکنیکل مواد پر مشتمل تھا۔ اس سلسلہ میں فارنسک جانچ کے نتیجہ میں معلوم کیا جاسکتا ہے کہ نشانت اگروال نے کس قسم کا مواد اپ لوڈ کیا جس کو کینیڈا سمیت ایک اور ملک (امریکا) کی آئی ڈی کی جانب سے کاپی کرلیا گیا جس کے بعد نشانت اگروال نے وہ مواد سائٹس سے ہٹا دیا۔ تفتیشی افسران کا دعویٰ ہے کہ سائنسدان اگروال نے براہموس میزائلوں کی حساس معلومات pdf فائلوں کی شکل میں اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کی ہوئی ہیں اور یہ درجنوں کی تعداد میں ہیں۔ ایک تجزیاتی رپورٹ میں بھارتی جریدے نے سوال اُٹھایا ہے کہ ایک قابل، ذہین سائنسدان کو بغیر تحقیق کئے پاکستانی انٹیلی جنس کا ایجنٹ قرار دینا درست نہیں،کیوں کہ ایک ستائیس سالہ بھارتی جو حساس ترین پروجیکٹ پر محض اپنی صلاحیتوں کی بنا پر تعینات کیا گیا تھا، اس کے فیس بک اکائونٹس کا جائزہ لیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ ان کے کانٹیکٹ میں صرف تین خواتین دوست تھیں جن میں ایک لندن، ایک امریکا اور ایک ناگپور کی پیدا ئشی امریکی لڑکی ہے جنہوں نے اگروال کو اس کی صلاحیتوں کی بنا کر بہترین ملازمت دلانے کا یقین دلایا تھا۔ یہ تینوں اکائونٹس چار سے پانچ سال کی مدت میں بنے ہیں اور ایک کا بھی تعلق پاکستان سے نہیں رہا۔ ادھر اتر پردیش پولیس کے ایک ڈائریکٹر کی سطح کے افسر نے بتایا ہے کہ دو فیس بُک آئی ڈیز براہموس میزائلوں کی حساس معلومات کے حصول کی مہم میں استعمال کی گئیں جن کی آئی پیز بیرون ملک سے سامنے آئی ہیں۔ ان آئی ڈیز میں ایک نیہا شرما اور دوسری پوجا رنجن کے نام سے ہے، جن کے بارے میں ایک اعلیٰ تفتیش کار نے انکشاف کیا ہے کہ وہ ہنی ٹریپس ہیں اور ان کی مدد سے بھارتی سائنسدان کو پھنسایا گیا ہے اور اس کو کینیڈا میں ایک بین الاقوامی ریسرچ آرگنائزیشن میں لاکھوں ڈالرز کی سالانہ تنخواہ اور مراعات کا لالچ دیا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں ممبئی مرر نے دعویٰ کیا ہے کہ نیہا شرما کی لوکیشن لندن کی معلوم ہوئی ہے، جبکہ پوجا رنجن کی لوکیشن شکاگو، امریکا کی آرہی ہے۔ لیکن بھارتی انٹیلی جنس اور تفتیش کار اس سلسلہ میں مزید کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔ جونیئر فرسٹ لاس مجسٹریٹ ناگپور نے دونوں اطراف کے دلائل سننے کے بعد براہموس سپر سانک میزائلوں کے پروجیکٹ پر تعینات نوجوان نشانت اگر وال کو اسپیشل کورٹ سے ایک ہفتے کے ریمانڈ پر تفتیشی اداروں کے حوالہ کردیا ہے۔ جبکہ تفتیشی ٹیموں نے براہموس پروجیکٹ پر نشانت اگروال کے ساتھ چار برس سے کام کرنے والے 100 سے زائد سائنسدانوں، انجینئرز اور ٹیکنیکل اسٹاف کو گھر نہ چھوڑنے کا پابند کردیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment