تفصیلی موقف جلد عوام کے سامنے پیش کروں گا

امت رپورٹ
شوکت عزیز صدیقی گزشتہ چھ سال سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج کی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔ انہیں 21 نومبر 2011ء کو صوبہ پنجاب کے کوٹے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا، بعد ازاں سینئر جج بنا دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے نتیجے میں 11 اکتوبر کو سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر صدر پاکستان نے انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے منصب سے فارغ کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق شوکت عزیز صدیقی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے برطرف جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ ’’میں پاکستان میں ہی رہوں گا۔ اگر سپریم کورٹ میں میری درخواست مسترد ہوئی تو وکالت سے وابستہ ہوکر قانون کی بالادستی کی جدو جہد جاری رکھوں گا‘‘۔ انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے اپنی معزولی کی سفارش پر کہا کہ ’’میرے لیے یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا۔ تقریباً تین سال پہلے سرکاری رہائش گاہ کی مبینہ آرائش کے نام پر شروع ہونے والے ایک ریفرنس سے پوری کوشش کے باوجود جب کچھ نہ ملا تو، ایک بار ایسوسی ایشن سے میرے خطاب کو جواز بنا لیا گیا۔ میرے مطالبے اور سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود یہ ریفرنس کھلی عدالت میں نہیں چلایا گیا اور نہ ہی میری تقریر میں بیان کئے گئے حقائق کو جانچنے کیلئے کوئی کمیشن بنایا گیا‘‘۔ شوکت عزیز صد یقی کا کہنا کہ ’’میں اللہ کے فضل و کرم سے اپنے ضمیر، اپنی قوم اور اپنے منصب کے تقاضوں کے سامنے پوری طرح مطمئن اور سرخرو ہوں۔ ان شاء اللہ اپنا تفصیلی موقف بہت جلد عوام کے سامنے رکھوں گا اور ان حقائق سے بھی آگاہ کروں گا جو میں نے اپنے تحریری بیان میں سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھے تھے۔ میں بتائوں گا کہ تقریباً نصف صدی بعد ہائی کورٹ کے ایک جج کو اس طرح معزول کرنے کے حقیقی اسباب کیا ہیں‘‘۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی اس وقت میڈیا میں خبروں کی زینت بننا شروع ہوئے جب انہوں نے وفاقی دارالحکومت میں قائم افغان بستیوں کو گرانے میں ناکامی اور عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر سی ڈی اے حکام کو جیل بھجوایا۔ شوکت عزیز صدیقی نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف 3 نومبر 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی کے بعد ججز کو نظر بند کرنے کے مقدمے میں پولیس حکام کو انسداد دہشت گردی کی دفعات کا اضافہ کرنے کا بھی حکم دیا۔ عدالتی احکامات کے بعد سابق صدر کمرہ عدالت سے فرار ہو گئے تھے۔ بعد ازاں پولیس نے انہیں حراست میں لے کر متعلقہ عدالت میں پیش کیا تھا۔ سابق صدر مشرف کی جانب سے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد وکلا کی عدلیہ بحالی تحریک میں بھی شوکت عزیز صدیقی پیش پیش رہے۔ راولپنڈی پولیس کے مطابق انہیں اس وقت کی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ شوکت عزیز صدیقی نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کا نوٹس بھی لیا تھا جس پر سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایف آئی اے کو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔ عدالتی حکم کے بعد ہی فیس بک کی انتظامیہ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور یقین دہانی کرائی تھی کہ آئندہ فیس بک پر گستاخانہ مواد نہیں لگایا جائے گا۔ تاہم یہ شیطانی سلسلے فیس بک پر اب بھی جاری ہے۔ شکرپڑیاں کے قریب پریڈ گرائونڈ کو ’’ڈیموکریسی پارک‘‘ اور ’’اسپیچ کارنر‘‘ کا نام بھی اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے شوکت عزیز صدیقی کے حکم پر ہی رکھا ہے۔ یہ جگہ احتجاج کیلئے مختص کی گئی ہے۔ اس مقام پر 23 مارچ کو یوم پاکستان کی سالانہ پریڈ بھی ہوتی ہے۔ شوکت عزیز صدیقی نے پاکستان تحریک انصاف کو گزشتہ سال اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں دھرنا دینے سے روک دیا تھا۔ ان کا نام اس وقت بھی میڈیا میں آیا تھا جب انہوں نے ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ہونے والی تقریبات پر پابندی عائد کر دی تھی۔ شوکت عزیز صدیقی کو جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج تعینات کیا گیا تو اس وقت افتخار محمد چوہدری پاکستان کے چیف جسٹس تھے۔ اب بھی شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہے۔ ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے سی ڈی اے کے حکام پر اپنی سرکاری رہائشگاہ کی تزئین و آرائش کیلئے دباؤ ڈالا تھا۔ شوکت عزیز صدیقی کی اس ریفرنس کی سماعت کو بند کمرے میں کرنے کی بجائے اوپن کورٹ میں کرنے کی درخواست کو سپریم جوڈیشل کونسل نے مسترد کر دیا تھا۔ شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس دو رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے ممتاز قادری کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کو ختم کر دیا تھا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment