نمائندہ امت
حالیہ دنوں میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور سینیٹر مشاہد اللہ خان کے درمیان لفظی گولہ باری کی خبریں میڈیا میں زیر گردش ہیں۔ اس حوالے سے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ ’’وزیر اعظم عمران خان کے اشارے پر بعض وزرا میرا میڈیا ٹرائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور میرے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ اس سے پہلے نیب اور ایف آئی اے کو میرے پیچھے لگایا گیا، جب کوئی کرپشن یا بدعنوانی سامنے نہیں آئی تو میرے اوپر الزام تراشی کی جا رہی ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں اور میرے دو بھائی جب پی آئی اے میں ملازم ہوئے، اس وقت نواز شریف سیاست میں آئے بھی نہیں تھے۔ میرا تیسرا بھائی ساجد اللہ خان 86ء میں پی آئی کا ملازم ہوا، جبکہ میری نواز شریف سے زندگی میں پہلی ملاقات 1989ء میں ہوئی۔ میرے دو بھائی اور میں اس وقت پی آئی اے میں میرٹ پر ملازم ہوئے، جب ایئر مارشل (ر) نور خان مرحوم جیسے بااصول اور سخت گیر چیئرمین اس کے سربراہ تھے۔ حکومت کی ناکام پالیسیوں پر تنقید کرنے کی وجہ سے مجھ پر الزام تراشی کی جارہی ہے۔ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں کی وجہ سے کسی دباؤ میں نہیں آؤں گا۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان سے کی گئی تفصیلی گفتگو سوال جواب کی شکل میں نذر قارئین ہے۔
س: مشاہد اللہ خان صاحب! آپ پر الزام ہے کہ آپ نے اپنے بھائیوں کو پی آئی اے میں بھرتی کرایا، نواز دور میں ان کو ناجائز ترقیاں دلائیں اور من پسند جگہ پر تعینات کرایا؟
ج: میرا ایک بھائی رشید اللہ خان 1978ء میں بھرتی ہوا۔ دوسرا بھائی مجاہد اللہ 1980ء میں بھرتی ہوا۔ خود میں 1975ء میں پی آئی اے میں بھرتی ہوا تھا۔ اس وقت تک نواز شریف سیاست میں بھی نہیں آئے تھے۔ فواد چوہدری نے الزام لگایا ہے کہ میں لوڈر بھرتی ہوا تھا۔ لوڈر بھی انسان، ہمارے بھائی ہیں۔ مجھے کسی مزدور سے کراہت نہیں ہوتی۔ لیکن واضح کردوں کہ 1975ء میں میٹرک پاس بھی سینئر کلرک اور اس سے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے تھے، جبکہ میں نے بی اے اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کرنے کے بعد پی آئی اے کو جوائن کیا۔ 1976ء میں مجھے دیگر چالیس افراد کے ساتھ بھٹو حکومت نے نکال دیا۔ ضیاء حکومت نے81ء میں دیگر پندرہ سو افراد کے ساتھ مجھے بھی نکال دیا۔ 90ء میں محترمہ بے نظیر کی حکومت آئی تو اس نے بحال کیا جبکہ 1997ء میں نواز شریف کے حکم پر میں نے پی آئی اے سے استعفیٰ دے دیا اور باقاعدہ سیاسی میدان میں آگیا۔ اب میرے جس بھائی ساجد اللہ کو پریشان کیا جارہا ہے اور لندن سے تمام تر قواعد و ضوابط اور ایس او پی نظر انداز کرکے فوری طور پر واپس بلایا گیا ہے، اس نے 88ء میں پی آئی اے جوائن کی جبکہ نواز شریف سے میری پہلی ملاقات ہی 89ء میں ہوئی تھی۔ میرے بھائیوں کو ترقیاں ان کے ساتھ بھرتی ہونے والے ملازمین کے بعد ملیں۔ پی پی اور مشرف دور میں بھی ان کو نشانہ بنایا گیا اور ترقیاں روکی گئیں۔ میری اپنی پی آئی اے میں ملازمت 25 سال بنتی ہے، لیکن میں نے اب تک پی آئی اے سے اپنے واجبات نہیں لئے ہیں۔ 97ء میں ریٹائرڈ ہوا تو اس وقت ہماری پارٹی کی حکومت تھی۔ اگر واجبات فوری طور پر لے لیتا تو بے ضمیر اور بے اصول لوگوں کو تنقید کا موقع ملتا۔ پھر مشرف آگئے۔ احمد سعید چوہدری جب چیئرمین پی آئی اے بنے تو میں ان سے ملا۔ ان سے اپنے واجبات کی بات کی انہوں نے متعلقہ ڈپارٹمنٹ سے معلومات لیں اور اگلی ملاقات پر میرا استحقاق تسلیم کیا، جلد ادائیگی کا وعدہ بھی کیا، لیکن بعد میں اپنی مجبوری کا رونا رو کر انکاری ہوگئے، میں بھی خاموش ہوگیا۔ پی پی دور آیا تو گیلانی وزیراعظم بنے، پھر ہماری اپنی حکومت بنی لیکن میں نے اس قصے کو نہیں چھیڑا۔ س: آپ پر الزام ہے کہ آپ نے ہزاروں پائونڈ کے اخراجات سے اپنا علاج لندن سے کرایا؟
ج: میرے آپریشن ہوئے، کیمو تھراپی ہوئی، کینسر کا بھی علاج کرایا جو یہاں ممکن نہ تھا۔ لیکن یہ واضح ہو کہ پی آئی اے نے میرے علاج پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا۔ حکومت پاکستان کے اخراجات سے ہزاروں افراد کا علاج ہوا ہے، جن میں ایک میں بھی ہوں۔ چون ہزار پائونڈ کے اخراجات میں سے ایک پائونڈ بھی مجھے براہ راست نہیں دیا گیا۔ لندن میں ہمارے سفارت خانے کی وساطت سے یہ رقم اسپتال کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی۔ اپنے سفر، کھانے پینے اور رہائش کے اخراجات میں نے خود کئے۔ ان دنوں میرا بیٹا لندن میں تھا، میں اس کے گھر پر رہا۔ پی آئی اے نے مجھ پر یا میرے خاندان پر کبھی ایک روپیہ خرچ نہیں کیا۔
س: آپ کے بھائیوں کو نواز لیگ دور میں خلاف ضابطہ ترقی ملی؟
ج: مشرف دور میں ان کی ترقیاں روکی گئی تھیں۔ ان کے ساتھ بھرتی ہونے والے پروموٹ ہوئے، لیکن ان کو میری وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے دور میں ان کی ترقی ہو، یا بیرون ملک تعیناتی۔ پی آئی اے نے تمام امور اپنے قواعد و ضوابط کے مطابق کئے۔ اب جب میرے یا میرے بھائیوں کے خلاف نیب اور ایف آئی اے کی مدد لینے کے باوجود عمران خان اینڈ کمپنی کو کچھ نہیں ملا تو ان کی ترقی پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ میں ایک اور بات واضح کردوں کہ میں، کے پی ٹی ٹرسٹ کا ممبر رہا ہوں۔ کے ڈی اے میں رہا ہوں۔ کے ایم سی کا ایڈمنسٹریٹر رہا ہوں۔ میں نے وہاں کوئی پلاٹ یا مالی مفاد حاصل نہیں کئے جو قانوناً کر بھی سکتا تھا۔ لیکن اپنے اندر کے مولوی اور ضمیر نے اس کی اجازت نہیں دی۔ جب کے پی ٹی کا ٹرسٹی ممبر تھا تو بائیس کروڑ روپے کا پلاٹ مل رہا تھا، جو میں نے نہیں لیا کہ ضمیر نے اسے قبول نہیں کیا۔ پوری دنیا اور پاکستان میں سوائے ایک پلاٹ کے جو قرعہ اندازی میں نکلا تھا، میرا کوئی پلاٹ، پلازہ یا جائیداد نہیں ہے۔ اس پلاٹ کی قسطیں بھی بڑی مشکل سے ادا کرکے اب اس کا مکمل مالک بنا ہوں۔
س: آپ کے بھائی کو لندن سے واپسی کا جو حکم پی آئی اے انتظامیہ نے دیا ہے، کیا وہ واپس آئیں گے؟
ج: یہ حکم صرف ساجد اللہ خان نہیں، بلکہ پی آئی اے کے ساتھ بھی سخت زیادتی اور ظلم ہے، لیکن ظاہر ہے اسے واپس آنا پڑے گا۔ یہ سراسر انتقامی کارروائی ہے۔ ادارے کے اپنے ایس او پیز اور قواعد کے مطابق ہیتھرو جیسے اہم ایئر پورٹ سے اتنی اہم ٹرانسفر کی تکمیل میں تقریباً ایک سال لگ جاتا ہے۔ پچھلے ماہ ستمبر میں ساجد اللہ کے تین سال مکمل ہوئے ہیں۔ لوگ پانچ سال بھی ایک اسٹیشن پر بیرون ملک رہتے ہیں۔ اب اسی ہیتھرو ایئر پورٹ پر انجینئرنگ کے شعبے کا غالباً شبیر نامی شخص، ساجد اللہ سے پہلے کا موجود ہے۔ اسے کسی نے نہیں پوچھا۔ جبکہ ساجد اللہ خان کو فوری واپسی کا کہا گیا ہے۔ اس ٹرانسفر کا طریقہ کار ہے، پہلے کرائے کا مکان چھوڑنا ہوتا ہے، تین ماہ پہلے اس کا نوٹس دیا جاتا ہے۔ پھر بجلی، گیس دیگر بل کلیئر کرنے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ جس شخص کی اس اسٹیشن پر ٹرانسفر ہو، وہ پہلے وہاں پہنچ کر چارج لیتا ہے۔ اس کے بعد پہلے سے موجود منیجر اسٹیشن چھوڑتا ہے۔ لیکن ایک شخص سے انتقام لینے کے لئے ادارے کو تباہ کیا جارہا ہے۔ ساجد اللہ خان نے ہیتھرو ایئر پورٹ پر وہ نظام کامیابی سے چلایا ہے جو برمنگھم، مانچسٹر یا دیگر برطانوی ایئر پورٹس پر پی آئی اے کے متعلقہ حکام نہیں چلا سکے۔ غالباً اس کو اس بات کی بھی سزا دی جارہی ہے۔ ایک اور بات بھی واضح کردوں کہ میرے بھائیوں کی پی آئی اے میں اس دور میں بھرتی ہوئی جب ایئر مارشل (ر) نور خان جیسا بااصول شخص اس ادارے کا چیئرمین تھا۔ یہ تمام بھرتیاں میرٹ اور اہلیت پر ہوئی تھیں اور پی آئی اے کا شمار ان دنوں دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں ہوتا تھا۔
س: آپ کے مطابق آپ کو پی ٹی آئی حکومت انتقام کا نشانہ بنارہی ہے، کیوں؟
ج: وجہ صاف ظاہر ہے۔ دھاندلی اور چوری کے مینڈیٹ سے لائی گئی یہ حکومت ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اپنی کارکردگی پر توجہ دینے اور عوام کو ریلیف دینے کی بجائے یہ عوام کا سانس بھی بند کرنے والے اقدامات کررہے ہیں۔ ہم لوگ جو عوام کی آواز بن کر ان پر تنقید کا اپنا آئینی و قانونی حق استعمال کررہے ہیں، یہ ہماری کردار کشی کررہے ہیں اور انتقامی کارروائیاں کررہے ہیں۔ لیکن میں نے بڑے بڑے مشکل وقت دیکھے ہیں۔ مشرف کے مارشل لا کو بھی بھگتا ہے۔ ان ہتھکنڈوں سے خوفزدہ یا مرعوب ہونے والا نہیں ہوں۔ بلکہ ان کی ایسی اوچھی حرکتوں سے عوام دشمن حکومتی پالیسوں پر میری تنقید پہلے سے بھی بڑھ جائے گی۔
٭٭٭٭٭