سید ارتضی علی کرمانی
خواجہ حسن نظامی صاحبؒ اپنے رسالہ ’’منادی‘‘ میں ہمیشہ حضرت صاحبؒ کو اپنا شیخ طریقت تسلیم کرتے تھے۔ آپؒ کی وصال پر گولڑہ شریف میں حاضر ہوئے اور ایک مخصوص مقالہ ’’منادی‘‘ میںشائع کیا۔ خواجہ صاحب بے حد مرنجان مرنج شخصیت تھے۔ ابتداً قادیانیوں کے حق میں نرم خیالی کے باعث علمائے کرام میں معتوب تھے۔ مگر آخر کار 17 جولائی 1935ء کے پرچہ میں اعلان کیا کہ میرے پیرو مرشد حضرت مولانا سید مہر علی شاہ چشتی نظامی سجادہ نشین گولڑہ شریف کا ایک بیان میری نظر سے گزرا ہے، جس میں حضرت اقدسؒ نے ایک فیصلہ کن حکم صادر فرمایا اور وہ یہ ہے کہ قادیانی اپنے عقائد مخصوصہ کے سبب مسلمان نہیں کہلا سکتے۔ اس واسطے کسی مسلمان کو ان سے کسی قسم کی تعاون نہیںکرنا چاہیے۔
اس واقعہ کے بعد ان کو قادیانیوں سے متعلق نرم گوشہ اختیار کرتے نہیں دیکھا گیا اور پوری زندگی ان کے متعلق کسی نے پھر اس قسم کی کوئی بات نہیں کی۔
حضرت خواجہ اللہ بخشؒ تونسوی
حضرت پہر مہر علی صاحبؒ کے کسی ہمعصر نے حضرت خواجہ اللہ بخش تونسویؒ صاحب کی خدمت میں جاکر کہا کہ پیر صاحب گولڑہ شریف دیوبندی علماء سے تحصیل علم کے بعد اب مولویوں کی طرح قادیانیوں سے الجھ پڑتے ہیں، ورنہ صوفیاء کو مناظروں سے کیا واسطہ، نیز یہ کہ دیوان صاحب اجمیری کے پیر بن کر اترا گئے ہیں۔ چنانچہ خواجہ اللہ بخش تونسویؒ نے ان باتوں کا ذکر تونسہ شریف کے عرس کے موقع پر حضرت ثانی سیالویؒ سے فرمایا اور غالباً یہ بھی کہا کہ آپ کے شاہ صاحب یہاں کبھی نہیں آئے۔
حضرت ثانی سیالویؒ صاحب نے سیال شریف کے عرس کے موقع پر حضرت صاحبؒ سے یہ سارے واقعات بیان فرما کر مشورہ دیا کہ کبھی تونسہ شریف بھی حاضری دے آئیں، کیوں کہ حضرت خواجہ صاحب کی طبع پر کچھ بار معلوم ہوتا ہے۔ جس کا رفع کرنا ضروری ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ میں یہیں سے چلا جاتا ہوں۔ جولائی کا مہینہ تھا اور مجوزہ سفر بھی نہایت گرم علاقہ کا تھا۔ مگر اس کے باوجود آپ فوراً روانہ ہوئے۔ ایک اور بات بڑی قابل غور ہے کہ پچھلے مضامین میں آپ نے مطالعہ فرمایا ہے کہ حضرت صاحب کو اگر کوئی بلاتا تو بلانے والے کو فرماتے کہ خود ہی آجائے، جبکہ مشائخ کے معاملے میں حضرت صاحبؒ کی کسر نفسی کا یہ عالم کہ حضرت خواجہ صاحب نے براہ راست بلوایا بھی نہیں اور حضرت صاحبؒ محض اس لیے اس قدر گرم موسم میں سفر اختیار کر رہے ہیں کہ کہیں بزرگوں کے دل میں کوئی بات ناگوار نہ گزرے۔
حضرت نے ڈیرہ غازی خان اپنے ایک ارادت مند خدا بخش ٹوانہ کو تار بھیجا، جنہوں نے استقبال کر کے آپ کو اپنے ہاں ایک دن اور ایک رات مہمان رکھ کر اگلے روز گھوڑوں اور سانڈنیوں پر تونسہ شریف روانہ کیا۔ اس زمانے میں سفر کچھ غیر منظم سا ہوتا تھا۔ پہلی منزل صدر الدین کے مقام پر ہوئی۔ اگرچہ وہاں ایک ڈاک بنگلہ بھی تھا، مگر قرب وجوار میں کوئی آبادی نہیں تھی۔ جب کہ ہمراہیوں کی تعداد کم و بیش 40,30 تھی۔ مولوی عالم صاحب کہنے لگے معلوم ہوتا ہے کہ آج فاقہ رہے گا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا ہمارے لئے کافی ہے۔
اس بات کو تھوڑی دیر گزری تھی کہ دور کے ایک گاؤں سے کچھ لوگ پر تکلف طعام لیے ہوئے حاضر ہوئے۔ حضرتؒ اور تمام ہمراہیوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ معلوم ہوا کہ ایک مسافر نے اس گاؤں میں یہ اطلاع دی تھی کہ گولڑہ شریف والے پیر صاحب آکر وہاں ٹھہرے ہیں۔ اس طرح اگلی منزل پر آپ نے سید شاہنواز کی دعوت پر ان کے گاؤں میں قیام فرمایا اور یوں چوتھے روز تونسہ شریف پہنچے۔
حالانکہ تونسہ شریف میں حضرت ثانی سیالویؒ اور نواب ملک خدا بخش ٹوانہ کے طلاع نامے پہنچ چکے تھے، مگر کوئی خاص انتظام نہ تھا۔ آپ کے پہنچنے پر تحصیل کے قریب والی سرائے میں جہاں عام لوگ ٹھہرتے تھے، آپ کے قیام کا بندوبست کیا گیا تھا۔ حضرت خواجہ تونسویؒ سے پہلے ملاقات سرسری طور پر نماز کے بعد ہوئی اور اس میں رسمی سلام اور مزاج پرسی کے علاوہ اور کوئی بات نہ ہوئی۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭