مسلمانوں کا انصاف!

محمد بن ابو عامر المنصورؒ حکومت اندلس کے قاضی تھے۔ ایک بار ان کے چھوٹے بیٹے نے قاضی ٔ شہر کا بیٹا ہونے کے غرور میں سرشار ہو کر ایک غریب بچے کو (جو ایک یہودی کا بچہ تھا) پیٹا، وہ فریاد لے کر محمد بن عامرؒ کے پاس آیا۔
قاضی صاحب نے فوراً اپنے بیٹے کو دربار میں طلب کیا اور فریادی کو حکم دیا کہ اس کی پیٹھ پر اتنے ہی زور سے بید کی چوٹ لگا کر حکم کی تکمیل کرو۔ چنانچہ حکم کی تکمیل ہوئی، وہ نازوں کا پلا بچہ تھا، اس مار کی تاب کہاں لاتا؟ چنانچہ اس کا پتہ پھٹ گیا اور اس نے وہیں عدالت میں جان دے دی۔
لوگوں نے یہ صورت حال دیکھی تو کانپ گئے، ظالم تو اپنی جگہ لرز اٹھے اور قسم کھا لی کہ آئندہ کبھی ظلم نہ کریں گے۔ قاضی صاحب گھر آئے تو بچے کی لاش سے لپٹ کر خوب روئے اور خدا تعالیٰ سے التجا کی کہ وہ اس کے قصور کو معاف کرے۔ (اسلامی کہانیاں)
کامیابی کی اہم وجہ!
ایک معرکے میں مسلمان کفار کے خلاف محو جنگ تھے، لیکن کافی وقت گزرنے کے باوجود فتح حاصل نہ ہوئی تو مسلمانوں نے جمع ہو کر غور کیا کہ آج فتح نہیں مل رہی، بہت سوچ بچار کے بعد ایک شخص کہنے لگا کہ ہم سے مسواک جیسی اہم سنت چھوٹی ہوئی ہے، اس وجہ سے فتح حاصل نہیں ہو رہی، چنانچہ سب نے اس سنت پر عمل کیا تو تھوڑی دیر میں فتح حاصل ہو گئی۔
بہادری کا ثبوت!
اکبری دور میں خان خانان عبد الرحیم خاں نے نظام الملک اور قطب الملک کے خلاف لشکر کشی کی تو آشنی کے پاس ایک جنگ ہوئی۔ اس موقع پر عبدالرحیم نے حیرت انگیز بہادری کا ثبوت دیا، وہ رات بھر گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر فوج کی نگرانی میں لگا رہتا، ایک موقع پر غنیم کے پچیس ہزار سوار عبدالرحیم کے پانچ ہزار سواروں پر اچانک ٹوٹ پڑے، عبدالرحیم کے تمام ساتھیوں کی ہمت جواب دے گئی، اس کے ایک ساتھی دولت خان لودھی نے اس کو جنگ کرنے سے روکا اور کہا کہ اس جماعت سے مقابلہ کرنا اپنے کو ہلاک کرنا ہے۔
عبدالرحیم کی غیرت جوش میں آ گئی اور وہ بولا کہ تم یہ کہہ کر دہلی کا نام برباد کرنا چاہتے ہو۔ دولت خان نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ دشمن کو شکست ہوئی تو سو دہلی آباد ہو جائیں گے لیکن اگر ہم لوگ ہلاک ہوئے تو پھر معاملہ خدا کے سپرد۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے گھوڑے کو آگے بڑھانا چاہا، چند بہادروں نے یہ صورت حال دیکھی تو آگے بڑھے اور کہنے لگے: ’’دولت خان! ہم ہندوستانی ہیں لڑ کر مرجانا ہمارا شیوہ ہے۔‘‘ دولت خان نے جھلا کر عبدالرحیم سے کہا کہ ٹھیک ہے یہی بات صحیح ہے، لیکن یہ بتائیں کہ جنگ کے بعد ہم لوگ کہاں ملیں گے؟
عبدالرحیم مردانگی اور بہادری کے پندار میں بولا: ’’لاشوں کے ڈھیر کے نیچے۔‘‘ یہ سن کر سارے لشکریوں میں ایک نئی غیرت اور ہمت پیدا ہو گئی اور وہ سر بکف ہو کر اس طرح لڑے کہ دشمن کی کثیر تعداد تتر بتر ہو گئی۔ (مأثر الامرائ، صحفہ:704، بحوالہ بزم رفتہ کی سچی کہانہاں، صفحہ: 92)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment