روسی لڑکی کی ایمان افروز داستان

ضیاءالرحمن چترالی
خالد کا کہنا تھا کہ میں اپنی بیوی کی طرف سے بہت پریشان تھا کہ کہیں وہ اسے مار نہ دیں، کہیں میری بیوی اسلام سے پھر نہ جائے، مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ شاید میری بیوی اب مجھ سے نہیں مل پائے گی، پوری رات میں اسی طرح کے خیالات میں مبتلا رہا، صبح کو حال معلوم کرنے اپنی بیوی کے گھر کی طرف گیا اور دور سے ہی اس کے گھر کے طرف دیکھتا رہا، اس کے تینوں بھائی اور باپ گھر سے باہر نکلے اور تھوڑی دیر میں پھر واپس آگئے، 3 دن اسی طرح گزر گئے، اب میری امید دم توڑنے لگی، میں سوچنے لگا شاید میری میری بیوی مر چکی ہے۔
چوتھے دن جب وہ چاروں اپنے کام پر چلے گئے تو دروازہ کھلا اور مجھے میری بیوی دکھائی دی، جس کی نظریں کسی کو تلاش کر رہی تھیں، میں دوڑتا ہوا اس کے قریب گیا تو اسے دیکھ کر میرے حواس گم ہو گئے، اس کا چہرہ اور پورا جسم خون میں لت پت تھا، اس نے ایک پھٹے ہوئے کپڑے سے اپنا جسم ڈھانپ رکھا تھا، ہاتھوں اور پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔ اسے دیکھ کر میں رونے لگا، اس نے مجھے سمجھایا اورکہا میری حالت دیکھ کر پریشان مت ہو، خدا کا شکر ہے، میں ابھی تک اسلام پر قائم ہوں اور جو تکالیف میں جھیل رہی ہوں، وہ ان کے بال برابر بھی نہیں، جو ہمارے پیارے نبیؐ، صحابہ کرامؓ اور ان سے پہلے ایمان والوں نے برداشت کی تھیں، تم کمرے پر میرا انتظارکرتے رہو۔ خدا کی ذات سے ناامید مت ہونا، ہو سکے تو رات کے آخری حصے میں دعائیں کرنا، خدا پاک ہماری دعا ضرور قبول کرے گا۔
میں اپنے کمرے پر واپس آگیا، تیسرے دن وہ کمرے پر آئی اور بولی: ہمیں فوراً یہ شہر چھوڑنا ہو گا۔ میں نے کہا: ہم فوراً ایئر پورٹ چلتے ہیں۔ اس نے کہا: ہم ایئرپورٹ نہیں جائیں گے، میرے گھر والے وہاں مجھے تلاش کرنے ضرور پہنچ جائیں گے، ہم نے ٹیکسی لی اور5,4 شہروں کو پار کرکے ایسے شہر میں پہنچ گئے، جہاں ایئر پورٹ تھا، وہاں سے پہلی پرواز سے اپنے ملک آگئے۔ گھر آکر میں نے سکون کی سانس لی، میری بیوی کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جو زخمی نہ ہو۔
اس نے اپنی آپ بیتی مجھے یوں سنائی کہ جب میں نے اپنے گھر والوں کو تاجر کی گھناؤنی حرکت کے بارے میں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اب میں مسلمان ہو چکی ہوں اور تم میرے شوہر ہو تو میرے باپ اور بھائیوں نے یک زبان مذہب تبدیل کرنے کا حکم دیا، مجھ پر تشدد کیا جانے لگا اور ہر بار مجھ سے اسلام سے پھر جانے کو کہا جاتا، انکار کرنے پر پھر مارنا شروع کر دیتے۔ ایک دن میری بہن کو مجھ پر ترس آگیا، اس نے تمہیں گھر کے آس پاس دیکھا تھا، میری بہن کے پاس زنجیر کی کنجی تھی، جس کی مدد سے وہ مجھے حاجت کے وقت ستون سے کھول دیتی تھی، اس نے بھائیوں کے جانے کے بعد میری وہ زنجیر کھول دی، اس دن چند منٹوں کے لیے میری تم سے ملاقات ہو گئی تھی، اس دوران میں اپنی بہن کو اسلام کے بارے میں بتاتی رہی۔
تیسرے دن میری بہن نے اسلام قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی، میں نے اس سے کہا ابھی تم اپنے اسلام کو ظاہر مت کرنا، یہاں تک کہ میں آزاد ہو کر تمہاری مدد کے قابل نہ ہو جاؤں۔ جس دن میں آزاد ہوئی، اس دن میرے باپ اور بھائیوں نے بہت زیادہ شراب پی رکھی تھی، جس کی وجہ سے وہ نشے میں دھت تھے، جب یہ لوگ مدہوش ہو گئے تو اس کا فائدہ اٹھا کر بھائی کی جیب سے چابی نکال کر میری بہن نے مجھے آزاد کر دیا، میں اپنی بہن سے یہ کہہ آئی ہوں کہ خدا پاک نے چاہا تو جلد ہی میں تمہیں لینے آؤں گی۔
خالد نے بتایا کہ میری بیوی کی حالت بہت خراب تھی، اس لیے واپس آنے پر سب سے پہلے اس کا علاج کرایا، خدا کا شکر ہے اب وہ بالکل ٹھیک ہے، میں اپنے آپ کو بہت خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ خدا پاک نے ایسی نیک بیوی دی ہے۔‘‘ (الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن العریفی)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment