گوگل میپ نے 4برس سے لاپتہ ملائیشین طیارہ ڈھونڈ نکالا

احمد نجیب زادے
گوگل میپ نے ساڑھے 4 برس سے لاپتا ملائیشین طیارہ ڈھونڈ نکالا۔ کمبوڈیا کے گھنے جنگلات سے بوئنگ MH-370 کے کاک پٹ اور دم کی تصاویر سامنے آنے پر ملائیشیا اور چین کے حکام ہائی الرٹ ہوگئے۔ جبکہ ملائیشین حکام کی ایک ٹیم کمبوڈین دار الحکومت نام پیومپن سے 90 کلومیٹر شمال مشرقی جنگل کی جانب جانے کی تیاریاں کررہی ہے۔ چینی اور ملائیشین میڈیا نے بتایا ہے کہ گمشدہ طیارے کے مسافروں کے سینکڑوں رشتے داروں نے بتایا ہے کہ اس نئی تحقیق نے ان کو ایک نئی امید بخشی ہے لیکن پرانے زخم بھی ہرے کردیئے ہیں اور وہ اب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جہاز میں سوار ان کے پیاروں کے ساتھ کیا بیتی۔ خلائی سیارچوں اور جدید آلات کی موجودگی کے بارے میں تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ طیارہ اسی سمت میں ملا ہے جہاں یہ غائب ہوجانے سے قبل محو پرواز تھا۔ عالمی ایوی ایشن ماہر اور سابق پائلٹ ڈیوڈ بائرز کا کہنا ہے کہ انہیں سو فیصد یقین ہے کہ دُم کا حصہ اور کاک پٹ سمیت ایک بڑی کھڑکی اسی بد قسمت طیارے کی ہے۔ ڈیوڈ بائرز کہتے ہیں کہ بوئنگ کمپنی کے طیارے کا کاک پٹ 19 فٹ 3 انچ ہوتا ہے اور ہم نے گوگل نقشہ سے کمبوڈیائی جنگلات میں پائے جانیوالے کاک پٹ کے ٹکڑے کی سیٹلائٹس جانچ کی تو اس کا سائز کمپیوٹرز کی مدد سے 17 فٹ 8 انچ ملا ہے جو ملائیشیائی طیارے سے قریب ترین ہے۔ اس سلسلہ میں جب ماہرین جنگل میں اُتریں گے تو ساری حقیقت سامنے آجائے گی۔ برطانوی ماہر ایوی ایشن اور سابق پائلٹ ڈیوڈ بائرز نے مطالبہ کیا ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو اس مقام کی جامع زمینی انسپکشن مکمل کرلینی چاہئے، یہ ایک بہت بڑا بریک تھرو ہے۔ برطانوی جریدے ڈیلی اسٹار نے ایک رپورٹ میں اس طیارے کے کاک پٹ کی تصاویر شیئر کی ہیں جس کے بعد مسافروں کے لواحقین نے ملائیشین اور چینی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں ایک جامع انکوائری کا نئے سرے سے آغاز کریں۔ واضح رہے کہ چینی مسافروں کے سینکڑوں لواحقین نے ملائیشین وزیر اعظم مہاتیر سے تحریری مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ اس کیس کو ذاتی دلچسپی لے کر حل کروائیں۔ برطانوی جریدے ڈیلی ایکسپریس نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ کمبوڈیائی جنگلات میں طیارے کے بڑے ٹکڑوں، دم اور کاکپٹ کی موجودگی سے سیٹلائٹس اور کمیونیکیشن ایکسپرٹس کی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ جہاز غرقاب نہیں ہوا، کیونکہ جب 8 مارچ 2014ء کو یہ جہاز لاپتہ ہوا تو اس کے بعد مسلسل چار روز تک 6 سے زائد مسافروں کے موبائل فون آن تھے۔ ان کے لواحقین نے رابطہ کی کوشش کی تو موبائل فون کی بیل جا رہی تھی، مگر کوئی فون ریسیو نہیں کر رہا تھا۔ چینی بائو نیوز ایجنسی سے گفتگو میں کم از کم 19 چینی مسافروں کے لواحقین نے تصدیق کی کہ ان کے پیاروں کے موبائل فونز بہترین بیٹریز کی وجہ سے چار دنوں تک 12 مارچ تک آن تھے اور ان پر کال کی جاتی تھی تو بیل بجتی تھی جس سے یقین کیا جاتا ہے کہ بد قسمت طیارہ سمندر میں نہیں بلکہ خشکی پر موجود ہے۔ برطانوی جریدے ڈیلی اسٹار نے انکشاف کیا ہے کہ گوگل میپ کی جانب سے کمبوڈیائی جنگلات میں گمشدہ ملائیشن جہاز کی تلاش کی تصاویر منظر عام پر آجانے کے بعد یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ طیارہ رات کے اندھیرے میں اپنا طے شدہ راستہ تبدیل کرکے نامعلوم سمت چلا گیا اور ایک لاکھ افراد/ رضاکاروں کی کثیر تعداد کی جانب سے تلاش کی سر توڑ کوششوں کے باوجود اس کو تلاش نہیں کیا جاسکا۔ اس سلسلہ میں رائل نیوی برطانیہ سمیت امریکی مسلح افواج، نیول فورسز، آسٹریلوی رائل نیوی، چین اور ملائیشیائی ادارے بھی ناکام رہے تھے۔ آخری اطلاعات ملنے تک اس ضمن میں علم ہوا ہے کہ ایک اعیٰ سطح کی ٹیم نے مسلح افواج کے ایک کھوجی ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹر کی مدد سے ملائیشیائی اورکمبوڈیائی تفتیش کاروں کے ساتھ مل کر اس علاقہ میں جہاز کے ٹکڑوں کا معائنہ کیا ہے، لیکن ہیلی کاپٹر کیلئے لینڈنگ اسپیس موجود نہ ہونے اور انتہائی گھنے جنگلات کی وجہ سے یہاں کوئی بھی تفتیش کار زمین پر نہیں اُتر سکا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment