حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

قسط نمبر30
سید ارتضی علی کرمانی
اگلے روز مجلس میں خواجہ صاحبؒ نے دریافت فرمایا ’’سائیں کیویں آئے وے؟‘‘ یعنی کیسے آنا ہوا۔ آپ نے فرمایا: خود نہیں آیا، بھیجا گیا ہوں اور اپنے پیرزادہ صاحب کے حکم کی تعمیل کر رہا ہوں۔ خواجہ صاحب نے تعلیم کے بارے میں سوال کیا کہ کیا کچھ پڑھا ہے اور کہاں سے پڑھا ہے۔ جب جواب دیتے ہوئے دورئہ حدیث کے ضمن میں حضرت صاحبؒ نے اپنے استاد مولانا احمد علی سہارنپوریؒ کا نام لیا تو خواجہ صاحب بولے کہ وہ تو بہت بڑا وہابی تھا۔ حضرت صاحبؒ نے جواب دیا کہ حق تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے، وہ بہت بڑے حنفی تھے، البتہ صوفیائے کرام کی رسوم کے پابند نہ تھے۔
حضرت پیر صاحبؒ کے قادیانی مناظرات کے متعلق خواجہ صاحبؒ نے اعتراض کیا تو حضرت صاحبؒ نے فرمایا کہ
’’میں اس امر میں معذور ہوں۔ کیوں کہ جس طرح مرزائی دلائل دیتے ہیں۔ اگر کوئی صاحب علم اس کی تردید کر سکے تو مجھے مناظرات کی کیا ضرورت ہے۔ بصورت دیگر میرا سکوت نامناسب ہے۔ اگر مسلمان ہی نہ رہیں گے تو صوفیائے کرام تصوف کی تعلیم کسے دیں گے؟‘‘
اسی پہلی مجلس کے بعد حضرت خواجہ صاحب کے خدشات دور ہوگئے۔ حضرت صاحبؒ اور ہمراہیوں کا سامان سرائے سے دیوان خانہ میں منتقل ہوگیا۔ خاطر تواضع شروع کر دی گئی۔ آپ نے 5 روز تونسہ شریف میں قیام فرمایا اور ہر روز خواجہ صاحب کے ساتھ علم وعرفان کی صحبتیں رہیں۔
تونسہ شریف سے واپسی کے وقت خواجہ تونسویؒ نے حضرت صاحبؒ کی سواری کے لیے اپنا خاص گھوڑا عنایت فرمایا اور اعزاز و اکرام کے ساتھ رخصت فرمایا۔ اس ملاقات کے بہت بہتر نتائج مرتب ہوئے۔ بہت سے خدشات دور ہوئے۔ اسی ملاقات کی وجہ سے حضرت صاحبؒ کے ارادت مندوں میں ایک اور پیرزادہ صاحب کا بھی اضافہ ہوا۔ حضرت خواجہ صاحبؒ کے منجھلے صاحبزادے حضرت خواجہ محمود تونسویؒ آپ کی ارادت میں آگئے۔ ان کی صوری، ذہنی اور روحانی محاسن نے دربار تونسوی میں ارشاد کی ایک الگ مسند بچھا دی تھی اور ہدایت کا ایک اور چراغ روشن کیا تھا۔ ان کی اکثر آپؒ کے ساتھ خط و کتابت رہتی تھی۔
حضرت حاجی رحمت اﷲ مہاجر مکیؒ (1817 تا 1891)
حضرت مولانا حاجی رحمت اﷲ صاحب مولانا خلیل اﷲ صاحبؒ کے خلف الرشید تھے۔ آپ کیرانہ ضلع مظفر نگر میں 1817ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آپ نے پہلے اپنے آبائی شہر اور پھر میرٹھ میں حاصل کی۔ میرٹھ میں آپ کے والد صاحب جناب مولانا خلیل اﷲ صاحب میر منشی کے عہدے پر فائز تھے۔ دینی علوم کی تعلیم آپ نے مولوی محمد حیات صاحب دہلوی کے مدرسہ میں حاصل کی۔ آپ کی شہرت اس وقت بام عروج پر پہنچی جب آپ نے ایک پادری جو کہ عیسائی عالم تھا، کے ساتھ مناظرے کئے۔ یہ عیسائیوں کا بہت بڑا عالم تھا۔ اس کا نام فنڈر تھا۔ اس کے ساتھ آپ کے مناظرے آگرہ اور استنبول میں ہوئے اور پوری دنیا میں ان مناظروں کی دھوم مچ گئی۔
انگریز حکومت چونکہ فاتح تھی، اس لئے اس نے اپنے مفتوحہ علاقوں میں لازمی طور پر اپنے مذہب کا پرچار کرنا تھا۔ مگر یہ کام اس نے جبری طور پر نہیں کیا۔ جیسا کہ ہندوئوں کی بعض تحاریک سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو زبردستی ہندو بنانا شروع کر رکھا تھا۔ جو ہندومت قبول کرتا، اس کو چھوڑ دیتے، ورنہ قتل کر ڈالتے۔ انگریز جانتے تھے کہ یہ کام تبلیغ سے ہی ممکن ہے۔ چنانچہ پادریوں کے غول کے غول بازاروں میں اسلام کے خلاف نفرت انگیز مواد کتابی صورت میں تقسیم کرتے پھرتے، کیونکہ انہیں صرف اہل اسلام سے ہی مدافعت کی توقع تھی۔ انہوں نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا۔پادری سی۔ جی فنڈر شاہی مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑا ہو کر علمائے کرام کو چیلنج کرتا کہ آئو مجھ سے مناظرہ کر لو اور مجھے مسلمان بنا لو یا پھر خود عیسائی بن جائو۔ مولانا رحمت اﷲ صاحبؒ نے اس صورت حال میں اس مردود کا مقابلہ کیا۔ کیونکہ اس کا تاثر ایک بہت عالم فاضل شخص کی حیثیت سے مسلمانوں میں حکومت پیدا کر چکی تھی۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment