حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں:
’’رسول اقدسؐ نے ہمیں قریش کے قافلے کا سامنا کرنے کے لیے بھیجا۔ حضرت ابو عبیدہؓ بن حراح (یکے از عشرہ مبشرہ) کو ہمارا امیر بنایا اور توشے کے طور پر ہمیں ایک تھیلا کھجوروں کا دیا۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہ تھا۔ تو حضرت ابو عبیدہؓ ہمیں ایک ایک کھجور دیا کرتے تھے۔ ہم اس کو چوس کر اوپر سے پانی پی لیا کرتے تھے تو وہ ہمارے لیے ایک دن رات کے لیے کافی ہو جاتی۔ اس کے ساتھ ہم اپنی لاٹھیوں کے ذریعے درختوں سے پتے گراتے، پھر ان کو پانی میں بھگو کر کھاتے تھے۔
چنانچہ ہم نے اسی حالت میں اپنا سفر جاری رکھا اور آگے بڑھتے رہے کہ اچانک ہماری نظر سمندر کے کنارے ایک مچھلی پر پڑی (جس کو عنبر کہا جاتا ہے) جو اتنی بڑی تھی کہ ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک کھاتے رہے اور حضرت ابو عبیدہؓ نے ہم میں سے تین آدمیوں کو لے کر اس کی آنکھ میں بٹھا دیا، پھر اس کے کانٹوں میں سے ایک کانٹے کو کھڑا کیا اور اس کے نیچے سب سے بڑے اونٹ پر سب سے اونچے قد والے کو بٹھا کر گزارا تو اس کا سر تک نہیں جھکا۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے کہ ساحل سمندر پر ہم پندرہ دن تک پڑاؤ ڈالے رہے۔ ہمیں (اس سفر میں) بڑی سخت بھوک اور فاقے کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک نوبت پہنچی کہ ہم نے ببول کے پتے کھا کر وقت گزارا۔ اسی لیے اس فوج کا لقب پتوں کی فوج ہو گیا۔ پھر اتفاق سے سمندر نے ہمارے لیے ایک مچھلی جیسا جانور ساحل پر پھینک دیا، اس کا نام عنبر تھا، ہم نے اس کو پندرہ دن تک کھایا اور اس کی چربی کو تیل کے طور پر (اپنے جسموں پر) ملا۔ اس سے ہمارے بدن کی طاقت و قوت پھر لوٹ آئی۔ بعد میں ابوعبیدہؓ نے اس کی ایک پسلی نکال کر کھڑی کروائی اور جو لشکر میں سب سے لمبے آدمی تھے، انہیں اس کے نیچے سے گزارا۔
حضرت جابرؓ نے بیان کیا کہ لشکر کے ایک آدمی نے پہلے تین اونٹ ذبح کئے پھر تین اونٹ ذبح کئے اور جب تیسری مرتبہ تین اونٹ ذبح کئے تو سیدنا ابوعبیدہؓ نے انہیں روک دیا، کیونکہ اگر سب اونٹ ذبح کر دیتے تو سفر کیسے ہوتا۔ قیس بن سعدؓ نے (واپس آ کر) اپنے والد (سعد بن عبادہؓ) سے کہا کہ میں بھی لشکر میں تھا، جب لوگوں کو بھوک لگی تو ابوعبیدہؓ نے کہا کہ اونٹ ذبح کرو۔ قیس بن سعدؓ نے بیان کیا کہ میں نے ذبح کر دیا کہا کہ پھر بھوکے ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اونٹ ذبح کرو، میں نے ذبح کیا، بیان کیا کہ جب پھر بھوکے ہوئے تو کہا کہ اونٹ ذبح کرو، میں نے ذبح کیا، پھر بھوکے ہوئے تو کہا کہ اونٹ ذبح کرو، پھر قیسؓ نے بیان کیا کہ اس مرتبہ مجھے امیر لشکر کی طرف سے منع کر دیا گیا۔ (بخاری شریف، کتاب المغازی)
حضورؐ کا غلام سفینہ اور شیر
امام حاکمؒ اپنی کتاب ’’المستدرک‘‘ میں حضرت سفینہؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت سفینہؓ فرماتے ہیں: ’’(ایک مرتبہ) شیر نے میرے اوپر حملہ کرنا چاہا تو میں نے اس سے کہا:
’’اے ابوالحارث! (یہ شیر کی کنیت ہے) میں رسول اقدسؐ کا غلام ہوں۔‘‘ تو اس نے اپنا سر نیچے کیا اور آگے بڑھ کر مجھے اپنے کندھے سے دھکیلا، یہاں تک کہ مجھے جھاڑی سے نکال کر راستے پر لے آیا اور پھر دھاڑا تو مجھے یہ محسوس ہوا کہ وہ مجھے الوداع کر رہا ہے۔‘‘
دعائوں سے بموں کی آگ بجھ جاتی
شیخ عبداللہ عزامؒ اپنی کتاب ’’آیات الرحمن فی جہاد الافغان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مجھے ارسلان نے بتایا: ’’ایک مرتبہ جہاد افغانستان میں ہمیں روسی ٹینکوں نے گھیر لیا، جن کی تعداد ایک سو بیس تھی اور ان کے پاس بہت سی گاڑیاں بھی تھیں۔ ہم نے ان کے ساتھ کافی مقابلہ کیا، لیکن جب ہمارے پاس ہتھیار کا رکھا ہوا ذخیرہ ختم ہو گیا اور ہمیں گرفتاری کا یقین ہو گیا تو ہم نے دعائوں کے ذریعے حق تعالیٰ کی طرف رجوع کیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اچانک روسیوں پر ہر طرف سے بم اور میزائل پھینکے جانے لگے، یہاں تک کہ روسی سارے بھاگ گئے، حالانکہ اس وقت اس علاقے میں ہمارے علاوہ کوئی اور نہ تھا، شاید وہ فرشتے تھے۔‘‘ (الفرج بعد الشدۃ)